ایرانی اور عبرانی قوم میں فرق !!!

0
185
رمضان رانا
رمضان رانا

ایرانی تہذیب وتمدن کا تعلق قدیم زمانے سے ہے جس کی تاریخ ہزاروں سالوں پر مشتمل ہے جو اب تک ایران اور اس کے گردونواح میں قائم ہے جو مختلف مراحل سے گزر کر آج تک پہنچی ہے جس کے بڑے بڑے بادشاہ سارس دی گریٹ، عادل، دادا اور نہ جانے کون کون سے حکمران گزرے ہیں جن کا تاریخ میں آج تک نام لیا جاتا ہے۔آج بھی ایران میں قدیم زبان فارسی بولی جاتی ہے جو کسی زمانے میں متحدہ ہندوستان کی سرکاری زبان ہوا کرتی تھی۔ جس کے بڑے بڑے عمر قیام، شیخ سعدی، علامہ اقبال جیسے شاعر پیدا ہوئے ہیں اسی طرح قدیم ایرانی کلچر اور رسم ورواج جشن بہاراں منایا جاتا ہے جو صدیوں پرانا کلچر ہے ایران ایک زمانے میں درجنوں کے مقابلے میں بڑی طاقت تھی جس کو تاریخ دانوں نے قصوروکسرا کا نام دیا تھا جو آج بھی جن حکمرانی کا دائرہ کار پوری دنیا میں پھیلا ہوا تھا، اپنے اپنے ملکوں ایران اور اٹلی میں موجود ہے۔ برعکس عبرانی قوم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیروکاروں کو کہا جاتا ہے جو بابل سے ہجرت کرکے پہلے مصر آئے پھر فلسطین میں آباد ہوئے چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے نبیۖ تھے جو خدا تعالیٰ کے حکم پر ہجرت کر رہے تھے جن کی زبان عبرانی تھی جس میں انہوں نے اپنے پیروکاروں کو اللہ پاک کی تبلیغ کی تھی اس لیے عبرانی جانتے اور پڑھنے والے کوئی قوم نہیں بن سکتے ہیں جس طرح سنکسرت پروفیسر مشرق یورپ اور جرمنی تک بولی مکمل اور پڑھی جاتی تھی یا پھر آج کا مسلمان عربی پڑھتا لکھتا اور بولتا ہے جو مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک کی زبان ہے مگر ہر عربی بولنے لکھنے اور پڑھنے والا عربی نہیں بن سکتا ہے کیونکہ عربی ایک قوم ہے جو پورے مشرق وسطیٰ میں پائی جاتی ہے تاہم عبرانی بولنے یہودی بعدازاں بنی اسرائیل کہلاتے ہیں جو حضرت یعقوب علیہ السلام جن کا نام اسرائیل تھا جن کے بارہ بیٹے تھے جس میں ایک کا نام یہود تھا جن کے کہنے پر حضرت یوسف علیہ السلام کو ہلاک کرنے کی بجائے کنویں میں پھینکا گیا تھا لہٰذا آج کے یہودی اس بیٹے کی اولاد تصور کرتے ہیں بلاشبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیروکار عبرانی زبان بولتے تھے جن کے تقریباً تمام پیغمبران حضرات عبرانی زبان میں اللہ پاک کا پیغام دیا کرتے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرات ابراہیم علیہ اسلام کی مصر اور فلسطین آمد سے پہلے اس خطے کی زبانیں کیا تھیں جو فرعونوں کے زمانے میں بولی جاتی تھیں یہ بھی سچ ہے کہ بنی اسرائیل کو صدیوں فرعونوں، اور ببلانوں نے غلام بنائے رکھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ بنی اسرائیل بار بار خدا تعالیٰ کے بائمی ہوئے ہیں جو بار بار تباہ اور برباد ہوئے ہیں اس لیے باغیوں کو حضرت ابراہیم علیہ اسلام یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آل کہا جائے تو مناسب نہیں ہوگا مزید برآں بنی اسرائیل یا یہودیوں کو بابل کے حکمرانوں نے اپنا غلام بنا لیا تو ایرانی بادشاہ سارس نے آزاد کرایا پھر رومن انہیں اپنا غلام بنا کر یورپ لے گئے جو تقریباً دو ہزار سال پہلے کا واقعہ کہلاتا ہے۔ جو زمین میں ضم ہوگئے اس لیے آج کے اسرائیل کے یہودیوں کے رنگ، نسل، زبانیں کلچر تمام کا تمام مختلف ہے جو اب کوئی قوم نہیں ہے ایک مذہب یہودی کے پیروکار ہوسکتے ہیں کیونکہ ایک قوم کے لئے ایرانی قوم کی طرح ایک زبان کلچر رسم و رواج کی ضرورت ہوتی ہے جو آج کے یہودیوں میں نہیں پائی جاتی ہے جس طرح دنیا بھر کے مسلمان مختلف زبانوں کلچروں، رسم روجواں کے حامل ہیں۔ مگر وہ اُمت ہماری کہلاتے ہیں جس میں عربی، ایرانی، ترکی، ہندوستانی، پاکستانی، بنگلہ دیشی، انڈونیشین، افریقی، چینی، روسی، یورپین، امریکی وغیرہ وغیرہ مسلمان پائے جاتے ہیں یا پھر یہودی مقامی لوگوں میں ضم ہوکر آرین قبائل کی طرح ختم ہوچکے ہیں اسی لئے یہودیوں میں مختلف رنگ، نسل زبان اور کلچر پایا جاتا ہے جن کا آپس میں ایرانیوں کی طرح کوئی رشتہ نہیں ملتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here