لاس اینجلس (پاکستان نیوز) سینیٹ نے ملک میں فائرنگ کے واقعات کی روک تھام کے لیے گن کنٹرول بل منظور کر لیا ہے جسے 30 برسوں میں اس معاملے پر سب سے اہم قانون سازی قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے ایک کیس میں فیصلہ دیا ہے کہ شہریوں کو ذاتی دفاع کے لیے عوام میں ‘عام طور پر استعمال ہونے والا’ اسلحہ لے جانے کا حق ہے۔اس قانون سازی کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ سینیٹ یا کانگریس کے ایوان بالا میں ڈیموکریٹس کو 15 ریپبلکنز کی حمایت بھی حاصل ہوئی جس کی وجہ سے یہ قانون سازی 65 ووٹوں سے منظور ہوئی جبکہ اس کے خلاف 33 ووٹ پڑے۔گزشتہ ماہ ہی ٹیکساس کے ایک شہر میں پرائمری سکول اور نیو یارک میں بوفیلو کی سپر مارکیٹ میں فائرنگ کے دو مختلف واقعات میں 31 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ان واقعات کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے سوال اٹھایا تھا کہ ہم کب گن لابی کے سامنے کھڑے ہوں گے؟گن کنٹرول بل کو کانگریس کی منظوری کے بعد ایوان نمائندگان سے بھی پاس ہونا ہو گا جس کے بعد صدر جو بائیڈن اس پر دستخط کریں گے اور یہ باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر لے گا۔اس پورے عمل میں زیادہ وقت نہیں لگے گا لیکن اس قانون سازی کو اہم قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب بھی اس میں ایسے کئی نکات شامل نہیں جن کا مطالبہ ڈیموکریٹ اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں نے کیا تھا۔مجوزہ بل میں 21 سال سے کم عمر افراد کے لیے اسلحہ خریدنے سے پہلے ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے تاکہ ہر کوئی باآسانی اسلحہ نہ خرید سکے۔اس کے ساتھ ساتھ نئے بل میں وفاقی فنڈنگ کے طور پر 15 ارب ڈالر کی رقم مختص کی گئی ہے جو ذہنی صحت کے پروگرام اور سکول سیکیورٹی بہتر بنانے پر خرچ کیے جائیں گے۔بل میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی ریاستیں ایسے قوانین نافذ کریں، جن کے تحت خطرہ سمجھے جانے والے افراد سے اسلحہ لیا جا سکے اور اس ریاستوں کو ایسے قوانین کے نفاذ کی ترویج دینے کے لیے فنڈنگ کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔سینیٹ سے منظور شدہ بل میں ایک اور نقص کو بھی دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے جسے ‘بوائے فرینڈ لوپ ہول’ کہا جاتا ہے۔ اس تجویز کے مطابق ایسے افراد کو اسلحہ بیچنا ممنوع قرار دیا گیا ہے، جن کو غیر شادی شدہ پارٹنرز پر تشدد یا ان کو ہراساں کرنے کے الزام میں سزا ہو چکی ہے۔ٹیکساس سے ریپبلکن سینیڑ جون کورنن، جنھوں نے اس بل پر مذاکرات میں حصہ لیا، نے اس موقع پر کہا کہ یہ بل امریکہ کے عوام کو محفوظ بنائے گا۔انھوں نے کہا کہ ہم نے جو کچھ یووالڈ میں دیکھا اور جو کئی دیگر کمیونٹیز میں ہوا، اس کے بعد میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنے پر یقین نہیں رکھتا۔ اس سب کے باوجود کچھ بھی نہ کرنا امریکی سینیٹ میں عوام کے نمائندے کے طور پر ہماری ذمہ داریوں سے روگردانی تصور ہو گا۔واضح رہے کہ امریکی سینیٹ میں یہ بل اسی دن منظور ہوا ہے جب سپریم کورٹ نے اسلحے کے حوالے سے ایک اہم کیس میں فیصلہ سنایا۔امریکہ کی سپریم کورٹ نے ملک میں اسلحے سے متعلق اپنے ایک اہم فیصلے میں شہریوں کے اسلحہ لے کر چلنے پر پابندی کے نیو یارک کے ریاستی قانون کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ملک میں جاری اسلحہ رکھنے سے متعلق قومی بحث کے باوجود اسلحہ رکھنے کے حقوق کو تقویت دیتا ہے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ کیلیفورنیا اور نیو جرسی جیسی ریاستوں میں اسی طرح کی پابندیوں کو خطرے میں ڈالتا ہے، اور اب توقع ہے کہ اب امریکہ میں زیادہ لوگوں کو اسلحہ رکھنے اور لے کر چلنے کی اجازت ہو گی اگر ایسی ریاستوں کے اپنے قوانین کو چیلنج کیا جائے تو تقریباً ایک چوتھائی امریکی ایسی ریاستوں میں رہتے ہیں جو متاثر ہو سکتی ہیں۔اس مقدمے میں سپریم کورٹ کو یہ بھی علم ہوا کہ نیویارک ریاست کا ایک قانون جس کے تحت شہریوں کو عوامی مقامات پر اسلحہ لے کر چلنے کی ‘مناسب وجہ’ ثابت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، امریکی آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس کلیرنس تھامس نے چھ قدامت پسند ججوں کی اکثریت کی جانب سے تحریر کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ امریکی شہریوں کو ذاتی دفاع کے لیے عوام میں ‘عام طور پر استعمال ہونے والے’اسلحہ لے جانے کا حق ہے تاہم عدالت کے تین آزاد خیال ججوں ایلینا کاگن، سونیا سوٹومئیر اور سٹیفن بریئر نے اکثریت کے فیصلے سے اختلاف کیا۔