ملکی سیاسی منظر سے محسوس ہوتا ہے کہ طاقتور حلقوں کی چالیں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہیںلیکن بجٹ سیشن کے ہنگاموں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اختلافات دن کے خیرسگالی بیانات سب اچھا کی شنید دے رہے ہیں۔ایک عجیب سیاسی کچھڑی پکتی جا رہی ہے جن توپوں کا رخ اپوزیشن کے اہم رہنمائوں بشمول نوازشریف کے بیانات کے ذریعے طاقتور حلقوں کے جانب کر دیا گیا تھا۔وہ اب اپوزیشن جماعتوں نے ایک دوسرے پر تان لی ہیں۔کچھ دن پہلے تک کچھ اسٹیبلشمنٹ کے پالے ہوئے سیاسی رہنمائوں جن میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ جنرل بھی شامل ہیں۔انکا جھکائو پی پی پی کے حق میں ہونے سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ اقتدار کا سرخاب اب پی پی پی کے شانے پر براجمان ہوا چاہتا ہے لیکن ن لیگ کی طرف سے مریم نواز کو ہٹا کر شہبازشریف کو آگے لانے سے پانسہ بدلتا نظر آرہا ہے۔نوازشریف کتنا بھی شور مچا لیں لیکن وہ کسی طرح بھی اقتدار سے زیادہ وقت دور نہیں رہ سکتے اور ان کی جماعت مزید توڑ پھوڑ کی متحمل نہیں ہوسکتی ،دوسری طرف پی پی پی پنجاب میں اپنا سیاسی اثررسوخ کھونے کے بعد مرکز میں اقتدار میں آنے کی صلاحیت بھی کھو چکی ہے۔سندھ، بلوچستان اور سرحد میں اثررسوخ سے وہ کبھی وزیراعظم کا عہدہ حاصل کر نہیں پائیں گے۔اس طرح اسٹیبلشمنٹ دونوں بڑی حزب مخالف جماعتوں کو ایک دوسرے کے خلاف نبزد آزما کرکے دونوں کو نفسیاتی طور اپنے سامنے جھکانے میں کامیاب ہوچکی ہے۔تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کا طریقہ کار میں کامیاب رہی۔اصولی سیاست اور مزاحمتی سیاست کو شکست ہوگئی ہے۔عوام اپنے رہنمائوں سے مایوس ہوتی نظر آرہی ،اب تو ن لیگ کے متوالوں نے بھی اپنی لیڈر شپ پر سوال اٹھانے شروع کردیئے ہیں۔جیالے تو پہلے ہی بدظن تھے ،بدعنوانی کے اثرات نے بڑی سیاسی جماعتوں کو دیمک کی طرح پہلے ہی کھوکھلا کیا ہوا تھالیکن حالیہ سیاسی قلا بازیوں نے ان جماعتوں کی رہی سہی ساکھ کو بھی برُی طرح متاثر کیا ہے لیکن پاکستان کی اندرونی ٹکرائو نے ملک کو مجموعی طور پر بہت نقصان پہنچایا ہے، ملک ویسے ہی معاشی دیوالیہ پن کی آخری حدود کو چھو رہی ہے۔پی ٹی آئی حکومت کی ناقص کارکردگی نے بھی مزید بگاڑ پیدا کیا ہے۔اخلاقی طور پر بھی بیرونی دنیا پر پاکستان کا ایک نہایت ہی ملکی تاثر پیدا ہو رہی ہے۔جس ملک کا ہوا بازی کا وزیر ہے بیان دے دے کہ ہمارے ملک کے 33% پائیلیٹ جعلی کاغذات پر جہاز اڑا رہے ہیں۔جس ملک میں بچوں کی ادویات میں ملاوٹ کا چرچا ہو جس ملک کے سابقہ حکمرانوں اور اہم سیاستدانوں پر سرحد کے محافظوں پر اربوں ڈالروں کی بدعنوانی کے الزامات ہوں اس ملک کی بیرونی یا بین الاقوامی ساکھ کیا رہ جائیگی۔قارئین اس کا اندازہ آپ خود کرسکتے ہوںاور ان سب اداروں کی ناکامی کی داستانوں کے اوپر جس ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں پر بہتان لگا کر انہیں زیر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہواور طاقتور حلقوں کو انکار کرنے والے ججوں کو انکے عہدوں سے ہٹانے یا ہٹائے جانے کی بات کی جائے۔ہم آج کے ترقی یافتہ دنیا کی انجمن میں بدترین ممالک کی فہرست میں شامل نہیں تو اور کیا؟لیکن صدافسوس کہ بین الجماعتی یا بین الگروہی اقتدار کی کشمکش نے ہمارے ملک کو جن خطرات کے قریب کر دیا ہے۔بیرونی دشمن ہے سوچ رکھنے میں حق بجانب ہونگے کہ یہ قوم تو اپنے کو خود تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ہمارے بااثر حلقہ وہ شیخ چلی ہیں۔جو جس ٹہنی پر بیٹھے ہیں اسے یہی کاٹنے پر بضد ہیں۔ہمیں ہمارے دشمن اندر سے توڑ رہے ہیں۔(We are bieng brokon form withim)ہے ہمارے ملک کا المیہ ہے جس ملک کی بنیاد میں لاکھوں لوگوں کی ہر طرح کی قربانیوں کا ثمر ہو اس کو چند طاقتور لوگ اپنے گروہی خود غرضوں کی بھینٹ چڑھا کر تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔لیکن بظاہر ہے مایوس کن صورتحال کسی بھی موڑ پر یکسر بدل بھی سکتی ہے اور نئی پور کی ذہانت اور اہلیت سے اور سب سے زیادہ اللہ پاک کی رحمت سے مایوسی کفر ہے اور ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے جب صورتحال بد سے بدترین حدود کو چھوتی ہے تو کوئی نہ کوئی بہتری کا راستہ نکلنا شروع ہوتا اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے ناپاک منصوبے خاک میں مل سکتے ہیں۔اگر عوام جاگ جائے اور اپنی صفوں میں اتحاد اور یگانگت پیدا کرے تو پاکستان کی کایہ پلٹ سکتی ہے۔اور انشاء اللہ پلٹے گی جس خطرناک وائرس نے امریکہ اور یورپ کے طاقتور ممالک کو ہلا کر رکھ دیا، پاکستان ارباب اقتدار کی نااہلیوں اور بدعملیوں کے باوجود بھی کافی قدر محفوظ رہا تو سمجھ آیا کہ جس کا کوئی نہیں تو اس کا خدا ہے یارو۔
٭٭٭