پاکستانی سیاست کی طویل تاریخ کسی نہ کسی حوالے بدنمائی سے عبارت رہی ہے۔ اس بدنمائی کے ارتقاء میں ریاست کے مختلف اداروں کے کردار پر انگشت نمائی بھی ہوتی رہی ہے ہم اپنے متعدد کالموں میں ان واقعات کا ذکر بھی کرتے رہے ہیں۔ غلام محمد اور ایوب خان کے خواجہ ناظم الدین کو وزارت عظمیٰ سے ہٹاے جانے سے ذوالفقار علی بھٹو کی سبکدوشی اور عدالتی قتل تک کے واقعات میں کبھی اسٹیبلشمنٹ تو کبھی عدلیہ کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔ تاہم پرویز مشرف کے دور کے بعد امید کی ایک کرن نمو دار ہوئی اور جہاں ایک جانب اسٹیبلشمنٹ کا واضح عزم نظر آیا کہ وہ سیاسی معاملات سے قطعی لاتعلق رہے گی وہیں عدلیہ کا بھی واضح عملی مؤقف سامنے آیا اور عدلیہ کے غیر جانبدارانہ کردار کی مثالیں بھی سامنے آئیں۔
ان تمام حقائق کے باوجود ہماری قومی بدنصیبی یہ رہی ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ بالخصوص نواز لیگ نے اپنی غرض اور ہوس اقتدار میں کسی نہ کسی بہانے یا طریقے سے اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ یا بیورو کریسی کو سازشی تھیوریز میں ملوث کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ فوج کے کاندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کے بھوکے نوازشریف نے ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسا حربہ آزمایا ہے جس سے ملک کے معتبر اداروں پر حرف آئے۔ اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے محروم، اپنی بدمعاشیوں، بدعنوانیوں کیلئے کبھی دبائو سے، کبھی دولت کے زور پر اور کبھی تعلقات یا رشتوں کی بنیاد پر سازشی کھیل کھیلے ہیں۔ اپنے کام نکالنے کیلئے منتقم مزاج نوازشریف نے مقتدر قوتوں سے استواری کی راہ اپنائی اور کام نکلتے ہی اپنے رنگ ڈھنگ دکھائے ہیں اور بھگتا بھی عدلیہ سے بھی ان کا نفرت انگیز کھیل ڈھکا چُھپا نہیں ہے۔ سپریم کورٹ پر حملے، جسٹس قیوم کو خریدنے سے جج ارشد کے ویڈیو تک نواز شریف کمپنی کی بدطینتی ہر طرح سے ان کے سازشی رویوں کی بدنما تصویر کشی ہے۔
اب نواز ٹولے کی تازہ ترین کانسپیریسی تھیوری گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے توسط سے سامنے آئی ہے۔ رانا شمیم انگلینڈمیں مقیم ہیں۔ایک حلف نامے (Affidavit) میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ جولائی 2018ء میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جو ان دنوں گلگت بلتستان اپنی اہلیہ کے ہمراہ آئے ہوئے تھے اور ججز ریسٹ ہائوس میں قیام پذیر تھے اپنے رجسٹرار کو ان یعنی رانا شمیم کی موجودگی میں ہدایت کی کہ جسٹس میاں عامر فاروق کو پیغام دیا جائے کہ نوازشریف اور مریم نواز کو انتخابات سے قبل رہائی نہ دی جائے۔ حلف نامے پر یہ بیان دینے والے رانا شمیم کے نوٹری پبلک وہی ہیں جنہوں نے نوازشریف کے حلف نامے کو نوٹرائز کیا تھا یعنی اس جج صاحب کو کوئی دوسرا نوٹری لندن بھر میں نہیں ملا۔ قبل اس کے کہ اس حلف نامے کی وجوہ، پس منظر اور اثرات پر اظہار خیال کیا جائے، رانا شمیم کے بارے کچھ ذکر ہو جائے۔ ہماری تحقیق کے مطابق موصوف رانا شمیم اور شریفوں کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ رانا شمیم کا بیٹا شہباز شریف کے دور میںاسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب رہا ہے۔ نوازشریف کے دوسرے وزارت عظمیٰ کے دور میں رانا شمیم کو سندھ ہائی کورٹ میں ایڈہاک جج مقرر کیا گیا تھا تاہم اس کیخلاف منفی ریمارکس اور رپورٹ پر اس وقت کے وزیراعظم جمالی نے عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔ رانا شمیم کے اپنے نام میں جسٹس استعمال کرنے پر سپریم کورٹ سے تنبیہہ کا سامنا کرنا پڑا۔ 2013ء میں جب نوازشریف وزیراعظم بنے تو رانا شمیم کو چیف جج گلگت بلتستان مقرر کر دیا گیا۔ گویا رانا شمیم شریف خاندان کا محکوم و معتمد مہرہ ہے۔
اب اس نکتۂ کی جانب آتے ہیں کہ رانا شمیم کو اس وقت پینڈورا باکس کھولنے کی یہ صورت کیوں پیش آئی۔ قارئین اس حقیقت سے واقف ہیں کہ بیماری کی وجہ سے لندن جانے والے نوازشریف نے اپنے قیام کو بڑھانے کیلئے اپیل کی ہے اور قرائن یہ ہیں کہ بیماری کی بناء پر ان کی اپیل کی منظوری مشکل نظر آتی ہے۔ اپنے قیام کو بڑھانے کیلئے یہ وجہ بنانے کیلئے کہ موجودہ حکومت اور ریاست ان کیخلاف سازش کر رہی ہے اور پاکستان واپسی سے انہیں قید و بند حتیٰ کہ ان کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے رانا شمیم کو آلۂ کار بنا کر سامنے لایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب اگرمیاں صاحب کو واپس آکر عدالتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سزا ہوتی ہے تو عدلیہ پر جانبداری کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔ اس امر میں کوئی شُبہ نہیں ہے کہ کپتان کی حکومت کو اس وقت کئی محاذوں کا سامنا ہے۔ ٹی ایل پی، ٹی ٹی پی، انتخابی و دیگر اصلاحات کیلئے قانون سازی اور سب سے بڑھ کر معاشی دُشواریوں، آئی ایم ایف کی کڑی شرائط اور مہنگائی وغیرہ کے باعث تبدیلی حکومت کو چومکھی لڑنی پڑی ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ اپوزیشن سے محاذ آرائی کے تناظر میں اب گئی تب گئی کی سازشی افواہوں میں کبھی پرویز خٹک کو اور کبھی خورشید شاہ کو وزیراعظم بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ صفحہ پھٹ چکا ہے اور کپتان کی روانگی طے پا چکی ہے۔
افواہوں، کانسپرینسی تھیوریز اور مشکلات کے اس شور و غوغا میں شریفوں نے یہ امید باندھ لی ہے کہ رانا شمیم کے توسط سے کی جانیوالی اس سازش سے وہ اپنے ناپا عزائم میں کامیاب ہو سکیں گے لیکن کوئوں کے کوشوں سے ڈھول نہیں پھٹا کرتے۔ رانا شمیم کے اس ڈرامے کی جہاں جسٹس ثاقب نثار نے سختی سے تردید کی ہے وہیں چیف جسٹس ہائیکورٹ، اسلام آباد نے بھی اس کانوٹس لے کر رانا شمیم اور انصار عباسی، میر شکیل وعامر غوری کو طلب کر لیا ،پہلی سماعت میں ہی تمام کو توہین عدالت پر شوکاز دے دیا ہے۔یہاں یہ نکتۂ بھی پیش کرتے چلیں کہ جولائی 18 میں جس بینچ نے نوازشریف ومریم نواز کی اپیل کی سماعت کی تھی، اس بینچ میں جسٹس میاں عامر فاروق شامل ہی نہیں تھے اور دو رکنی بینچ جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس گل حسن اورنگزیب پر مشتمل تھا۔ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے اور اس تازہ ترین جھوٹی سازش کا حشر بھی وہی ہوگا جو ماضی میں شریفوں کی سازشوں کا ہوا تھا۔ تبدیلی حکومت کو ان مسلسل کانسپرینسیز سے نپٹنے کیلئے اپنا گھر مضبوط کرنا ہوگا۔
٭٭٭