پاکستان میں زراعت کی تباہی کے لئے زرعی زمینوں کو شہری آبادیوں میں بدلا جارہا ہے جس کو زرعی زمینوں کو رہائشی آلاٹوں، پلاٹوں رہائشی اسکیموں کالونیوں میں بدل کر بڑے بڑے شہروں کی اردگرد کی زرعی زمینوں دن بدن ختم ہو رہی ہیں جس میں نت نئی رہائشی اسکیمیں ڈیفنس اور عسکری سوسائٹیاں بحریہ ٹائون اور دوسری ہزاروں اسکیمیں ہیں جو پاکستان کی زرعی زمینوں کے دشمن بن چکے ہیں جس پر پاکستان کا دانشور اہل علم، وعقل خاموش تماشائی اس لئے بنا ہوا ہے کہ وہ خود آج کنالوں، ایکڑوں پر مشتمل مکانوں، بنگلوں کوٹھیوں اور خادم ہائوسوں کے مالک ہیں ، ملک کے تمام صحافی، لکھاری، اینکرز کو لینڈ یا مافیا کے سربراہ ملک ریاض نے سینکڑوں ایکڑ کنالوں پر مشتمل بنگلے اور کوٹھیاں بطور منہ چپ پردے رکھے ہیں جو دنیا بھر کی کردار کشی کرتے نظر آتے ہیں مگر ملک ریاض کی دیہاتوں ،گائوں، جھونپڑیوں اجاڑنے پر خاموش رہتے ہیں جسکی مثال سامنے ہے۔ جب سابقہ چیف جسٹس افتخار چودھری نے ملک ریاض کے خلاف کسی قتل وغارت گری پر مشتمل مقدمات کی سماعت کرنے کی کوشش کی تو ملک ریاض ٹولہ نے جسٹس صاحب کے صاحبزادے ڈاکٹر ارسلان کو اپنے داماد اور بیٹی کے ہاتھوں بیرون ملک میں کچھ پیسے کے لین دین میں ملوث کرکے چیف جسٹس افتخار چودھری کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی جس کے سلسلے میں سنٹرل کمیشن بنایا گیا جس کی تحقیق میں ملک ریاض جھوٹا ثابت ہوا کہ کسی قسم کی دوست سپریم کورٹ پر اثرانداز نہیں ہوئی ہے۔ جس پر پورا میڈیا ملک ریاض کی حمایت کر رہا تھا کیونکہ ملک ریاض نے صحافیوں کو کروڑوں روپے اور الاٹ، پلاٹ اور مکانات بطور رشوت دے کر رکھے تھے تاہم بحریہ ٹائون، ڈیفنس ہائوسنگ اسکیمیںعسکری کالونیاں جنرل کالونیوں اور دوسری رہائشی اسکیموں سے ملکی زرعی تباہی ہو چکی ہے جس کی زد میں لاہور کی زرعی زمینیں ملتان کے آموں کے باغ، کراچی ملیر تباہ وبرباد ہوچکا ہے۔ شہروں کے اردگرد کی زرعی زمینیں اب مکانوں بنگلوں کوٹھیوں، فارمز ہائوسوں میں بدل چکی ہے جو عنقریب پورے ملک عوام کو بھوک ننگ میں مبتلا کر دے گا جس کے بعد ہر بنگلے کوٹھیاں فرعونوں کے محلوں کی نکل میں رہ جائیں گے۔ بہرکیف وہ ملک جس کی زندگی زراعت پر انحصار کرتی ہے ،پورا ملک ناقص اور کم زراعت اوپر سے زرعی زمینوں کو شہری زندگی میں بدلنا منصوبوں میں شامل ہو وہ ایک دن غذائی قلت کا شکار ہو کر اپنی موت خود مر جائے گا۔ یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان میں انڈسٹری چلیں فیکٹریاں بند ہوچک ہیں۔ سرمایہ کاروں بیرون ملک منتقل ہوچکی ہے۔ ملکی ایکسپورٹ اور امپورٹ کا کاروبار ٹھپ ہوچکا ہے۔پاکستان میں صرف اور صرف افراط زر کا دور دورہ ہے جس کو عوام آدمی اپنی امریت سمجھ رہا ہے حالانکہ یہ وہ تباہی ہے جس کا شکار یونان اور ارجنٹائن ہوچکا ہے۔ کہ تمام تر چہل پہل کے باوجود دونوں ملک دیوالیہ ہوگئے جن کو بین الاقوامی ساہو کاروں یورپین یونین اور ورلڈ بینک نے بچایا تھا تاکے ان کے قرضے نہ ڈھوب جائیں آج پاکستان کی حالت یونان اور ارجنٹائن سے بدتر ہے مگر اہل علم تماشائی بنا ہوا ہے۔ ملک میں ذاتی افراتفری کا عالم ہے کوئی بھی مستقبل کے خوفناک حالات و واقعات سے آگاہ نہیں۔بہرحال پاکستان میں اگر زرعی زمینوں کو نہ بچایا گیا تو ملک شدید قحطوں کا شکار ہو جائے گا جس کے لئے لازم ہے کہ آج بھی ملک میں مکانوں بنگلوں کوٹھیوں اور فارم ہائوسیوں کی بجائے اونچی بلڈنگوں کی تعمیر کی جائے جس پر کتابوں اور ایکڑوں پر مشتمل گھروں کی بجائے چند مرلوں پر اونچی اونچی عمارتیں کھڑی کی جائیں تمام بنگالوں کے محلوں، جاتی امر اجاگیروں بلاول ہائوسوں کو ملیٹ کرکے اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کی جائیں تاکہ ملکی آبادی کو بسا کر زراعت کو بچایا جاسکے۔
٭٭٭