آئی ایم ایف اور نگران حکومت!!!

0
44

ٹیکس محصولات میں متوقع بہتری حکومتی مالیات کو مضبوط بنانے اور بالآخر سماجی اور ترقیاتی اخراجات کو تقویت دینے کے لیے درکار مالیاتی گنجائش پیدا کرنے کے لیے اہم ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرط پر عمل درآمد کی خاطر بیس لاکھ نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے پر کام شروع کر دیا ہے۔ چئیرمین نادرا لیفٹیننٹ جنرل محمد منیر افسر کی سربراہی میں آٹھ رکنی کمیٹی میں ایف بی آر و دیگر محکموں کے متعلقہ حکام شام ہیں۔کمیٹی ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کے لئے ایف بی آر کے منصوبے پر عملدرآمد کے لئے سفارشات و تجاویز تیار کرے گی۔ رواں برس بارہ جولائی کو پاکستان کے لئے تین ارب ڈالر کے پیکج کی منظوری کے بعد مینجنگ ڈائریکٹر آئی ایم ایف کرسٹالینا جارجیوا نے کہا تھا کہ پاکستانی حکام کا مالی سال 24 2023-کے بجٹ کا ہدف معمولی سرپلس ہے،یہ مالیاتی استحکام کی جانب ایک خوش آئند قدم ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ غیر اہم بنیادی اخراجات پر نظم وضبط کو برقرار رکھنا ضروری ہو گا تاکہ بجٹ پر عمل درآمد میں مدد ملے۔ متوازی طور پر، حکام کو فوری طور پر لاگت کے ساتھ ٹیرف کو سیدھ میں لا کر، ہرسیکٹر کی لاگت کی بنیاد میں اصلاحات اور بجلی کی سبسڈی کو بہتر ہدف بنا کر توانائی کے شعبے کی عملداری کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ایم ڈی آئی ایم ایف کرسٹالینا جارجیوا کے مطابق پاکستان کو ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے اور حکومتی مالیاتی انتظام کو درست کرنیکے لیے بہتر کوششوں کی ضرورت ہے، بشمول معیاری انفراسٹرکچر کی فراہمی اور ترقی و کارکردگی میں بہتری لانے کے۔ کچھ عرصہ قبلسٹیٹ بینک آف پاکستان اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے مشترکہ طور پر سرکاری ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی آن لائن وصولی کو ون لنک سہولت کے ذریعے متعارف کرایا ہے۔ یہ سہولت انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، ایکسائز اور کسٹم ڈیوٹی کی ادائیگی میں مددگار ہوگی۔ اس طرح کی سکیم کا مقصد ادائیگی کے نظام کو بہتر بنانا ہے خاص طور پر محصولات کی وصولی کے تناظر میں ٹیکس دہندگان کو سہولت فراہم کرنا اور لیکیج کے واقعات کو کم کرنا۔اس اقدام سے ٹیکس جمع کرنے والی مشینری میں ناکارہ ہونے کے امکانات کو کم کرکے آمدنی بڑھانے میں مثبت کردار ادا کرنے کی بھی توقع ظاہر کی گئی ۔ آزمائشی جائزے الیکٹرانک ٹیکس کی وصولی اور محصول میں اضافے کے درمیان مضبوط تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ لہذا ڈیجیٹائزیشن کے لحاظ سے ٹیکس جمع کرنے کے طریقہ کار میں پیش رفت سے ٹیکس دہندگان کی سہولت اور محصولات کی وصولی میں اضافہ کی امید ظاہر کی گئی۔ یہ اقدام روایتی طریقوں سے ٹیکس کی ادائیگی میں صرف ہونے والے وقت کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ بہت سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجروں کا کہنا ہے کہ مختلف ٹیکسوں کی ادائیگی کے لیے بینکوں اور ٹیکس دفاتر کا دورہ کرنے پر لاگت آتی ہے جس کی وجہ سے ان کی ٹیکس کی تعمیل کی مجموعی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح ٹیکس دہندگان کے لیے بھی لاگت میں کمی آئے گی۔اس سہولت کی فراہمی کے بعد پچھلے ایک سال میں وہ نتائج نہیں مل سکے جن کی توقع ظاہر کی جارہی تھی۔یوں ٹیکس ادائیگی میں سہولت ٹیکس گزاروں کی تعدادمیں خاطر خواہ اضافے میں معاون نہ ہوسکی۔خرابی کہاں پر ہے ،حکومت اب تک اس پر بات نہیں کر سکی۔ ورلڈ بینک کی ٹیکس ادائیگی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ایشیا بحرالکاہل کے ممالک میں مجموعی طور پر ٹیکس ادائیگی کی درجہ بندی میں کافی نیچے آتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں، ٹیکس وصولی کے طریقہ کار میں موثر آئی ٹی پر مبنی نظام کی عدم موجودگی پاکستان کے معاملے کی طرح ‘ادائیگیوں کی تعداد’ اور ‘تعمیل کرنے کے لیے وقت’ کے اشاریوں کی شدت سے ظاہر ہوتی ہے۔تاہم، نظام کے موثر نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے کچھ امور کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے جن میں ٹیکس دہندگان کی طرف سے، “کمپیوٹر کی خواندگی” ٹیکس دہندگان اور ٹیکس حکام کو تربیت کے ذریعے ڈیجیٹلائزڈ عمل کو استعمال کرنے کے قابل بنا نا۔ الیکٹرانک ادائیگی اور فائلنگ کو مزید آسان بنایا جانا چاہیے۔مزید برآں، اس نظام سے پیدا ہونے والے ڈیجیٹل خطرات کو بھی احتیاط سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس دہندگان کے اعتماد کو فروغ دینے اور ڈیجیٹائزیشن کو مزید ترقی پسند بنانے کے لیے سائبر سیکیورٹی اور رازداری کے مسائل کو سمجھداری سے نمٹایا جانا چاہئے۔ ٹیکس ایڈمنسٹریشن میں اصلاحات اور پاکستان کے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بڑھانے کے لیے براہ راست ٹیکسوں میں اضافہ کیا جانا چاہیے اور ان شعبوں پر ٹیکس عائد کیا جانا چاہیے جنہیں ٹیکس ادا کرنے والے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ان سیاست دانوں، با اثر اور دولت مند افراد کو ٹیکس نظام میں شامل کیا جائے جو پر تعیش زندگی گزارتے ہیں لیکن ٹیکس چوری و ٹیکس عدم ادائیگی کو وطیرہ بنائے ہوئے ہیں۔ انتہائی مقروض ریاست ہونے کی وجہ سے پاکستان اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے قرضوں پر انحصار جاری نہیں رکھ سکتا۔ ضروری ہے کہ ریاست اپنی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے اپنے ٹیکس نظام میں اصلاحات کرے۔ اگرچہ 2020 میں ٹیکس کی وصولی میں 18 فیصد اضافہ ہوا لیکن ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی زیادہ تر آمدنی بالواسطہ ٹیکسوں سے آتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں لوگ ٹیکس ادا کرنے کے پیچیدہ طریقہ کار سے فائدہ اٹھا کر ٹیکس ادا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here