تیسری قسط
آپ کے مرشد گرامی کے عطا کردہ دونوں القاب بندہ نواز اور گیسو دراز اس قدر مشہور ہوئے کہ لوگ آپ کا نام بھول گئے۔ جو بھی آپ کا تقریراً یا تحریراً ذکر کرتا ہے تو انہیں القاب سے۔ بھلا کیوں نہ ہو کہ یہ القاب عطا کردہ کس کے ہیں، اس کے ہیں جسے دنیا قدوة السالکین، زبدة العارفین، فخر اولیائے کاملین، چراغ دہلوی حضرت خواجہ نصیر الدین کے نام سے جانتی پہچانتی اور مانتی ہے۔
اولیاء اللہ کی ذوات مقدسہ خلوص وللٰہیت کی زندۂ جاوید تصاویر ہوا کرتی ہیں۔ ان کے دل میں جذبہ ایثار کا سمندر ہر وقت موجزن رہتا ہے۔ یہ پاکیزہ شخصیات ظلم و ستم، دردوغم سے بے پروا اور فکر عقبیٰ میں مست وسرشار رہا کرتی ہیں۔ یہی وہ حضرات ہیں جو دین کی راہ میں خوش اسلوبی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب بڑھ جاتے ہیں بلکہ کانٹوں کو بھی روند کر چلا کرتے ہیں۔ سچ ہے!
آئین جواں مردی حق گوئی وبے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
اولیاء اللہ کی زندگی ”الاان اولیاء اللہ لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون” کی مکمل تفسیر ہوا کرتی ہے اور اولیاء اللہ معرفت الٰہی کے جام سے ایسے سرشار ہوتے ہیں کہ حکم خداوندی پر سمندروں میں کود جانا، پہاڑوں سے چھلانگ لگا دینا ان کے لیے کوئی امر مشکل نہیں ہوتا۔ اقبال نے کیا ہی اچھا کہا!
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کو طبی عمر عطا فرمائی۔ آپ کا وصال پرملال ایک سو پانچ(105) سال کی عمر میں ہوا اور آپ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ دہلی اور گلبرگہ میں خدمت خلق کے لیے صرف کردیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آپ چوالیس سال تک دہلی میں اور22سال تک گلبرگہ میں بلاخوف لوم لائم تکالیف وآرام کی پروا کیے بغیر دین متین کی خدمت اور مذہب اسلام کی اشاعت میں مصروف عمل رہے۔ آپ کی روحانی تربیت کا یہ عالم تھا کہ جو آپ کی خانقاہ میں آتا مجاہدات کی چکی میں آپ اسے اس طرح پیستے کہ وہ صیقل وکندن بن جاتا۔ پھر آپ کی نگاہ گرم سے وہ مقتدی سے مقتدا اور راہرو سے رہبر بن جاتا۔
٭٭٭