روزے کے مسائل!!!

0
56

(1) بلڈٹیسٹ کے لیے اپنا خون نکلوانے یا کسی شدید ضرورت مند مریض کو خون کا عطیہ دینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، البتہ اگر خون دینے سے اتنی جسمانی کمزوری لاحق ہونے کا اندیشہ ہو کہ روزہ رکھنے کے قابل نہ رہے، تو روزے کی حالت میں اس سے اجتناب کرے۔ (2) کان میں دوا یا تیل ٹپکانے یا دانستہ پانی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، سوائے اس کے کہ خدانخواستہ کسی شخص کے کان کا پردہ پھٹا ہوا ہو اور اس سے پانی یا دوا رس کر معدے یا دماغ تک پہنچ جاتی ہو، تواس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ (3) ہماری تحقیق کے مطابق آنکھ میں دوا ڈالنے یا کسی بھی قسم کا انجکشن لگانے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے، بعض علماء کے نزدیک اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ جس مسئلے کے بارے میں قرآن وحدیث میں صریح حکم نہ ہو، وہ مسئلہ اجتہادی کہلاتا ہے، اس میں لوگوں کو جس عالم پر اعتماد ہو، اُس کے فتوے پر عمل کریں، ڈاکٹر دھبہ الزوحیلی لکھتے ہیں: ”انجکشن جلد کے اندر پٹھوں میں یارگوں میں لگانا ہو، بہتر یہ ہے کہ روزے کی حالت میں نہ لگائے، افطار کے وقت تک انتظار کرے، اگر رگوں میں خون چڑھائے گا، تو روزہ فاسد ہوجائے گا، (4) روزے کی حالت میں قے آنے کی فقہائے کرام نے24ممکنہ صورتیں بیان کی ہیں، ان میں سے صرف دو صورتوں میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے:(الف) بے اختیار منہ بھر کر قے آئے اور اُس میں سے کچھ مواد واپس نگل لے، (ب) طبیعت کی خرابی کے سبب جان بوجھ کر قے کرے، اگر ایسی قے منہ بھر کر آجائے تو خواہ واپس حلق میں کچھ بھی نہ نگلے، روزہ ٹوٹ جائے گا،(ج) باقی صورتوں میں روزہ نہیں ٹوٹتا۔ (5) نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبانی نیت ضروری نہیں ہے، مستحب ہے۔ اگر رات ہی سے نیت کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اس صورت میں ان الفاظ کے ساتھ نیت کرے: ”میں اللہ تعالیٰ کے لیے کل کے روزہ کی نیت کرتا ہوں”۔ صبح صادق یعنی سحری کے وقت یا سحری کے بعد کرنا چاہے، تو ان الفاظ کے ساتھ نیت کرے: ”میں اللہ تعالیٰ کے لیے آج کے روزے کی نیت کرتا ہوں” اگر نصف النہار شرعی سے پہلے نیت کرے تو یہ کہے: ”میں آج صبح سے روزے سے ہوں”۔ اگر دل میں نیت ہے اور زبان سے روزے کی نیت کے الفاظ ادا نہیں کیے، تو اس سے روزے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ (6) سحری سے پہلے غسل جنابت واجب ہوچکا تھا مگر سحری ختم ہونے سے پہلے غسل نہ کرسکا یا دن میں روزے کے دوران نیند کی حالت میں جنبی ہوجائے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا اور نہ اس سے اجر میں کمی واقع ہوتی ہے، البتہ واجب غسل کو اتنی دیر تک مئوخر کرنا کہ ایک فرض نماز کا وقت گزر جائے، حرام ہے، کیونکہ اس سے نماز قضا ہوجائے گی۔ (7) وضو کے دوران مسواک کرنا عام دنوں میں بھی سنّت ہے اور رمضان المبارک کے دوران روزے کی حالت میں بھی سنّت ہے، حضرت عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں:”میں نے بہت مرتبہ نبیۖ کو روزے میں مسواک کرتے ہوئے دیکھا،(ترمذی:725)”۔ روزے کی حالت میں فقہائے احناف نے مسواک کی اجازت دی ہے، خواہ وہ خشک ہو یا تر یا اس میں کوئی ذائقہ محسوس ہوتا ہو۔ تر مسواک کی لکڑی کا کوئی ریشہ حلق میں چلا گیا تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔ منجن، ٹوتھ پائوڈر اور پیسٹ اس سے مختلف ہے کہ اس میں ذائقہ بہت محسوس ہوتا ہے، نہ اس پر مسواک کا اطلاق ہوتاہے اور نہ مسواک کی سنت ادا کرنے کے لیے اس کی ضرورت ہے، حتیٰ الامکان روزے کی حالت میں اس کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے، کیونکہ اگر اس کے ذرّات حلق میں واضح طور پر محسوس ہوں اور اس کا قوی اندیشہ بھی ہوتا ہے، توایسی صورت میں روزہ فاسد ہوجائے گا، الغرض منجن یا ٹوتھ پائوڈر یا پیسٹ سے ممانعت کا مشورہ احتیاط کی بنا پر ہے کہ بعض اوقات غیرارادی طور پر اس کے ذرات حلق میں چلے جانے کا امکان رہتا ہے۔
(8) روزے کی حالت میں خوشبو استعمال کرسکتے ہیں، ناخن کاٹ سکتے ہیں، بالوں کو تیل لگا سکتے ہیں، اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
(9) دمے کا مریض جواکہ تنَفّس(lnhaler) کے استعمال کے بغیر دن نہیں گزار سکتا، وہ معذور ہے اور اس کو اس بیماری کی بنا پر روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے، اگر یہ مرض دائمی ہے، تو وہ فدیہ ادا کرے۔ اگر روزہ رکھ لیا ہے اور مرض کی شدّت کی بنا پر انبیلر استعمال کیا، تو روزہ ٹوٹ جائے گا، روزہ رکھنے کی استطاعت ہو تو بعد میں قضا کرے، ورنہ فدیہ ادا کرے۔
(10) انتہائی درجے کے ذیابیطس کے مریض یا ایسے تمام اَمراض میں مبتلا مرض جن کو خوف خدار رکھنے والا کوئی دین دار ماہر ڈاکٹر مشورہ دے کہ وقفے وقفے سے دوا استعمال کرو یا پانی پیو یا خوراک استعمال کرو، ورنہ مرض بے قابو ہوجائے گا یا کسی عضو یا جان کے تلف ہونے کا اندیشہ ہے، تو ایسے تمام لوگ شرعی معذور ہیں، اُنہیں شریعت نے رخصت دی ہے کہ روزہ نہ رکھیں اور فدیہ ادا کریں۔ لیکن اگر فدیہ ادا کردیا ہے اور بعد میں اللہ نے اپنے فضل وکرم سے اُس بیماری سے صحت عطا کردی، تو قضا بھی کرے، فدیہ میں دیے ہوئے مال کا ثواب اُسے مل جائے گا۔
(11) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کا دو وقت کا کھانا مقرر کیا ہے، ہر روزے دار اپنے معیار اور مالی استطاعت کے مطابق فدیہ ادا کرے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”سو جو شخص خوش ولی کے ساتھ فدیے کی مُقررہ مقدار سے زیادہ ادا کرے تو یہ اُس کے لیے بہتر ہے، (البقرہ:184)”، فدیہ اور فطرے کی مقدار برابر ہے، اس لیے ہر شخص اپنی مالی حیثیت کے مطابق دو کلو۔
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here