راقم نے ماضی میں نوجوانی میں دو مرتبہ عمرہ ادا کیا ہے۔ایک دفعہ 1978 میں عمرہ ادا کرنے کا موقع ملاجب ہم پاکستان سے جنرل ضیا کے ظلم و ستم اور بر بریت کے ہاتوں تنگ آکر ترک وطن پر مجبور ہوئے تھے۔جس میں ہمارے پیارے دیرینہ دوست اور کالج کے ساتھی حفیظ عباسی جو اسلامیہ لا کالج طلبا یونین کے جنرل سیکرٹری بھی منتخب رہ چکے ہیں۔جنہوں نے ہمیں امریکہ کی بجائے سعودی عرب جانے کی تلقین کی تھی کہ امریکہ میں بڑی خواری ہوگی۔سعودی عرب کچھ بہتر رہے گا۔اسی بہانے عمرہ بھی ادا ہو جائے گاچنانچہ جدہ پہنچ کر پہلے عمرہ کیاپھر مدینہ پہنچا۔اس وقت مسجد نبوی زیر تعمیر تھی یہ وہ زمانہ تھاجس وقت لوگوں کی تعداد بہت کم ہواکرتی تھی۔بعد ازاں 2005 میں عمرہ کی سعادت ملی تو بھی اتنی تعداد میں لوگ نہیں پائے جاتے تھے۔امسال اپریل جب رمضان شریف کے بعد اور حج سے پہلے عمرہ ادا کرنے کا موقع ملاتو معلوم ہواکہ زائرین کی تعداد ہزاروں کی بجائے لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔جس کو شمار کر نا مشکل ہے جبکہ رمضان شریف میں تیس لاکھ اور حج کے موقع پر چالیس لاکھ بڑھ جاتی ہے۔جس کے باوجود ان دنوں میں لاکھوں زائیرین کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہر طرف نظر آرہا ہے۔زائرین کے ہجوم کے ہجومْ چلتے پھرتے نظر آرہے ہیں۔حرم شریف اور مسجد نبوی کے ارد گرد کے ہوٹل فل پیک ہیں۔جب خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں زائرین کو دیکھاتو مجھے اقبال کا شعر یاد آجاتا ہے۔کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایازنا کوئی بندہ رہا نا بندہ نوازجس میں کوئی شق نہیں ہے۔کہ مقامات مقدسہ میں دنیا بھر کے لوگ پائے جاتے ہیں۔جس میں سفید۔ سیاہ۔ براؤن اور نہ جانے کونسے کونسے رنگوں۔ نسلوں۔ زبانوں۔ کلچروں اور تہذیبوں کے حاملان ہوتے ہیں۔جو مکہ شریف اور مدینہ منورہ میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔نہ کوئی چھوٹا۔ بڑا۔ امیر اور غریب نظر آتا ہے۔ہر کو ئی اپنی اپنی عبادت میں مصروف پایا جاتا ہے۔جو ہاں وقت خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں جمع رھتے ہیں۔جن کی تعداد بڑھ جانے سے اب خانہ کعبہ کا طوائف کئی گھنٹوں پر محیط ہو چکا ہے جو بعض اوقات کمزور۔ بیمار اور بوڑے شخص کے لئے مشکل ہوجاتا ہے جن کے ویل چیر بڑی لاتعداد میں پائی جاتی ہیں جس کویا کام کرنیوالے یا پھر خاندان کے افراداستعمال کرتے ہیں۔اگر میرا بیٹا میرے ساتھ نہ ھوتا تو میرے لیے عمرہ کرنا مشکل ہوجاتاجو میری کرسی اٹھاتاپھرتا رہا ہے۔تاہم سعودی حکومت کی دونوں مقامات مقدسہ کے انتظامات قابل تعریف ہیں جس کے تعاون کے لیے ہر ملک کی حکومتوں کو اپنے اپنے بھیجے جانے والے زائرین کو خصوصی ٹریننگ دینا چاہیے۔کہ جس میں اگر لوگوں کو قطاروں میں کھڑے ہونا اورآنے جانے کے لیے پر تیار کیاجائے۔جن کی موجودہ حالت کو دیکھ کر معلوم ہوتاہے کہ مستقبل میں زائیرین کی تعداد بڑھ جانے سے کیسے ہر شخص حج اور عمرہ کر پائے گا۔زائرین کو قواعد و ضوابطہ سیکھانے پڑیں گے۔اگر زائرین قطاریں بنا کر چلیں گے تو حج یا عمرہ کی ادائیگی میں تیزی آئے گی۔جن سے کمزور اور لاچار لوگ بھی آسانی سے عمراہ ادا کر پائیں گے۔بحرحال عمرہ میں قدرت کے بہت مناظر دیکھنے کو ملتے ہیںجس کا اظہار کرنا مشکل ہے۔کہ اللہ پاک نے ایک بیابان پہاڑوں اور ریگستانوں گھرا ہواعلاقے میںحضرت ابراھیم کے خاندان حضر ت حاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل کے لیے ایک بستی بساء یہاں کوئی چرند اور پرند تک نہ تھا۔جو آج اتنا بارونق بن چکا ہے۔پھر یہاں آخرالزماں آخری نبی حضور ۖکو پیدا کیا جنہوں نے دنیا بھر میں روحانی، سماجی، سیاسی، امن، انصاف، مساوات پر مبنی نظام پیش کیا جس سے عہد جہالت اور غلامی کا خاتمہ ہوا۔مزید برآں دنیا بھر سے آئے ہوئے زائیرین لاکھوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں جو اپنی اپنی زبانوں میں اللہ پاک کا ورد کرتے نظر آتے ہیںجو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ تقریبا چار ہزارسال پہلے پہاڑوں کے سایہ میں چھپاہوا اللہ کا گھر آج کی دنیا کا ایک بارونق اور سب سے بڑی عبادت گاہ اور ضرورت بن چکا ہے جس کی دنیا بھرمیں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔بڑے بڑے نمردوں، فرعونوں، بادشاہوں کے محل زمین بوس ہوگئے مگر اللہ کا گھر جب تک یہ دنیا ہے تب تک ہمیشہ آباد ہے اور قائم رہے گا۔ (آمین)
٭٭٭٭٭٭