باہمی مسائل کے حل کیلئے پاک افغان اتفاق!!!

0
10

نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان انتظامیہ کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی سے دونوں جانب ایک دوسرے سے پائی جانے والی شکایات پر بات چیت کی ہے۔ اعلی سطحی مذاکرات میں ‘سلامتی سمیت دو طرفہ مسائل کو مثبت ماحول میں حل کرنے کے لیے بات چیت جاری رکھنے’ پر اتفاق کیا گیا۔وزارت خارجہ کے مطابق نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے علاقائی تجارت اور رابطے کے فوائد ، خاص طور پر سکیورٹی اور بارڈر مینجمنٹ سے متعلق مسائل کو حل کرنے کی بنیادی اہمیت پر زور دیا۔پاکستان و افغانستان نے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور اعلی سطحی روابط کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر بھی اتفاق کیا۔پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کابل دورے کے دوران افغانستان کے عبوری وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند سے بھی ملاقات کی۔اس بات چیت میں سلامتی و تجارت جیسے معاملات پر گفتگو کی گئی۔افغانستان روانگی سے قبل اسحاق ڈار نے پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے لاحق خدشات کا ذکر کیا تھا اور اس معاملے پر افغانحکومت سے بات کرنے کا بتایا تھا۔پاکستان و افغانستان دو برادر ہمسائیہ مسلم ممالک ہیں تاہم دونوں کے باہمی تعلقات کی تاریخ ہموار نہیں رہی۔سوویت یونین کے خلاف مزاحمت میں پاکستان نے افغان عوام کی مدد کی لیکن دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ نے دونوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا۔اس دوران باہمی تعلقات کو خوشگوار بنا کر خطے کی تجارتی منڈیوں سے دونوں مساوی فوائد حاصل کر سکتے تھے لیکن یہ اتفاق نہ ہو سکا۔ اگست 2021 میں امریکی انخلا کے بعد طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے پاکستان میں دہشت گردی بڑھی ۔دہشت گردانہ واقعات میں اضافے کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کو شکایت ہے کہ افغان طالبان نے عسکریت پسند گروپوں، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو افغان سرزمین سے پاکستان کی سلامتی کے خلاف کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے،افغان طالبان سرحد پار حملوں کو تیز کرنے اور سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے عمل میں شریک ہیں۔پاکستان کو امید تھی کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد پڑوسی ملک سے بہتر تعلقات اور تعاون پر مبنی تعلقات استوار ہوں گے، تاہم فی الوقت دہشت گردی کے سبب حالات کشیدہ اور اچھے تعلقات کی آرزو ادھوری ہے ۔افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان ماضی کے تعلقات کو دیکھتے ہوئے پاکساتنی حکامکو امید تھی کہ طالبان کی زیر قیادت افغانستان زیادہ تعاون پر مبنی علاقائی شراکت دار ثابت ہو گا، تاہم اس کے بعد سے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافے کے سبب پاکستان باہمی امور میں خاصا محتاط ہو گیا ہے۔ ان گروہوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے کئی بار سفارتی تنازعہ پیدا ہوا ہے ۔کشیدہ تعلقات کا اقتصادی اور باہمی سکیورٹی تعاون پر بھی برا سایہ پڑا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں حالیہ تناو کی بڑی وجہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حملے اور دہشت گردی کے بڑھتے واقعات ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ برس ا س لحاظ سے پچھلی ایک دہائی کے دوران سب سے مہلک رہا۔پاکستان کی طرف سے افغان حکام کو بار بار کہا جاتا رہا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کو افغانستان میں پناہ لینے کا موقع دے رہے ہیں۔ پاکستان کی شکایت ہے کہ دہشت گرد افغان سرزمین سے پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ طالبان حکومت اس الزام کی تردید کرتی رہی ہے۔ پاکستان و افغانستان کے درمیان مہاجرین کی واپسی کا معاملہ سابق شکایات میں اضافہ کے طور پر شامل ہو گیا ہے ۔پاکستان نے غیر دستاویزی افغانوں کی وطن واپسی کا آغاز 2018 میں کیا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نومبر 2023 اور اس کے بعد تقریبا 900,000 افراد کو افغانستان واپس بھیجا جا چکا ہے۔ پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان طے شدہ معاہدے کے تحت آٹھ لاکھ سے زائد رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو ملک بدر کرے گا۔حکومت پاکستاناب اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں کی ایجنسی کے ساتھ رجسٹرڈ تقریبا 10 لاکھ افغانوں کو ملک بدری کے تیسرے مرحلے میں واپس ان کے وطن بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔پولیس ترجمان کے مطابق سب سے زیادہ گرفتاریاں شمال مغربی صوبے خیبرپختونخوا میں عمل میں آئیں جبکہ کچھ خاندانوں کو دارالحکومت اسلام آباد اور قریبی شہر راولپنڈی سے لا کر بھی ان کیمپوں میں منتقل کیا گیا ہے۔افغان حکومت اس عمل کو روکنے ، اس میں رعایت سمیت کئی مطالبات کر رہی ہے۔دو ہفتے قبل امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے دو دہائیوں کی طویل جنگ کے بعد اگست 2021 میں افغانستان سے امریکہ کے مکمل انخلا کے دوران وہاں چھوڑے گئے امریکی فوجی سازوسامان کے مسئلے کو حل کرنے پر پاکستان کے ساتھ اتفاق کیا۔افغانستان میں رہ جانے والے امریکی ہتھیار پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں زیراستعمال ہیں۔ مارکو روبیو نے امریکہ کے وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد نائب وزیر کارجہ اسحاق ڈار سے پہلی براہ راست بات چیت میں افغانستان کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ وزیر خارجہ روبیو نے افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی فوجی سازوسامان کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق، پاکستان و امریکہ کے وزرائے خارجہ نے دو طرفہ تعلقات، اقتصادی تعاون اور علاقائی سلامتی پر بھی تبادلہ خیال کیا۔بظاہر افغان وزیر خارجہ کے ساتھ اسھاق ڈار کی ملاقات دونوں برادر ممالک کی قیادت میں کشیدگی کم کم کرنے کی خواہش کا مظہر ہے۔امید کی جاتی ہے کہ افغان قائدین نے جن امور پر اتفاق ظاہر کیا ہے،مزید پیشرفت کے لئے وہ اپنے حصے کا کردار ادا کرنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here