غیر ملکی سرمایہ کاری پر 89کروڑ ڈالر منافع بیرون ملک منتقل

0
20

اسلام آباد(پاکستان نیوز)پاکستان سے 10 ماہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر منافع کی مد میں88 کروڑ 70 لاکھ ڈالر بیرون ملک منتقل کیئے گئے جوسالانہ بنیادوں پر 251 فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024 میں جولائی تا اپریل کے دوران 88 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کا منافع بیرون ملک منتقل کیا گیا، جس کا حجم گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران 25 کروڑ 30 لاکھ ڈالر تھا۔ مرکزی بینک نے ترسیلات زر باہر جانے میں نرمی کی ہے، مالیاتی شعبے میں ذرائع نے بتایا کہ غیر ملکی سرمایہ کار صورتحال سے پریشان تھے اور انہوں نے پالیسی کے بارے میں شکایات کی تھی، اسی دوران آئی ایم ایف نے بھی مداخلت کی تھی جس کے بعد درآمدات پر بھی نرمی کی گئی۔ پاکستان کو خطے میں سب سے کم غیر ملکی سرمایہ موصول ہوئی ہے، اور منافع باہر بھیجنے کی پالیسی نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی، رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران ملک میں ایک ارب 45 کروڑ ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی مزید تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ اپریل میں منافع کی بیرون ملک منتقلی 8 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کے ماہانہ اوسط کے برعکس محض 5 کروڑ 60 لاکھ ڈالر رہی، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ مرکزی بینک اب بھی کوشش کررہا ہے کہ 30 جون کو مالی سال کے اختتام تک ڈالرز کو ملک میں رکھا جاسکے۔ آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق اسٹیٹ بینک کو مالی سال 2024 کے اختتام تک زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب ڈالر تک برقرار رکھنے ہیں رواں برس غیرملکی سرمایہ کار پر منافع کی بیرون ملک منتقلی 81 کروڑ 10 لاکھ ڈالر رہی مینوفیکچرنگ سیکٹر سے سب سے زیادہ منافع بیرون ملک منتقل ہوا، اس میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں واضح فرق دیکھا گیا، مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024 کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران مینوفیکچرنگ سیکٹر سے 22 کروڑ 69 لاکھ ڈالر کا منافع اور ڈیوڈنڈ باہر بھیجا گیا، جس کا حجم گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران 3 کروڑ 4 لاکھ ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ نجی ٹی وی نے مالیاتی شعبے کے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اب بھی اربوں ڈالر کا منافع اور ڈیوڈنڈ پھنسا ہوا ہے، لیکن اسٹیٹ بینک یا حکومت اس کی تفصیلات نہیں بتا رہا مالی سال 2024 کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران ہول سیل اور ریٹیل کے شعبے سے منافع کی بیرون ملک منتقلی 21 کروڑ 35 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی جو گزشتہ برس صرف 48 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھی جس سے مالی سال 2023 میں سخت پالیسی ظاہر ہوتی ہے رواں برس 9 ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر اور اس معاملے میں آئی ایم ایف کی ممکنہ مداخلت کی وجہ سے اس سال منافع کی بیرون ملک منتقلی سے نرم پالیسی ظاہر ہوتی ہے۔ دوسری جانب معاشی امور کے ماہرین کا کہنا ہے یہ ناکام پالیسی ہے کہ سرمایہ کار اپنے منافع بڑا حصہ بیرون ممالک لے جاتے ہیں کیونکہ دیگر ممالک میں اس کی شرح مقررہے اور اس شرح سے زیادہ منافع باہر منتقل نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے اسی ملک میں لگانا ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ پچھلے تقریبا ڈیڑھ سال سے ملک میں سرمایہ کاری نہیں آئی بلکہ پیسہ ملک سے باہر جارہا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ملک کی سیاسی قیادت پارلیمان کے فلور پر کھڑے ہوکر کہے کہ انہوں نے دوبئی میں جائیدادیں زیادہ کرائے کے حصول کے لیے خرید رکھی ہیں تو بیرون ملک سے سرمایہ کار پاکستان آنے کی بجائے دوبئی میں جائیداد خرید کر اس سے کرایہ حاصل کیوں نہ کرئے؟۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک سرمایہ کاری کے صرف وعدے ہیں معاشی ترقی کی رفتار مسلسل تنزلی کا شکار ہے سرمایہ کاراور پروفیشنلز ملک چھوڑ کرجارہے ہیں جس سے دنیا کو منفی پیغام جارہا ہے اسٹاک مارکیٹ ڈالراور سونے کی قیمتوں کے معاملے میں ایسی پالیسیاں اختیار کی گئی ہیں جو ناقابل فہم ہیں کیونکہ ایک دن اسٹاک مارکیٹ اگر سو پوائنٹ اوپر جاتی ہے تو دو دن بعد تین سو پوائنٹ نیچے آجاتی ہے اسی طرح سونے اور ڈالر میں اتارچڑھا کیا جارہا ہے معمولی کمی پر ڈھنڈورا پیٹاجاتا ہے جبکہ اضافے پر مکمل خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے کئی سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لانے کے دعوے کیئے تھے مگر 18ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود سرکاری اداروں کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں کوئی سرمایہ کاری نہیں آسکی بلکہ ملک پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے دوست ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری صرف وعدوں تک محدودہے حتی کہ چین نے بھی اس عرصے کے دوران کوئی نیا منصوبہ پاکستان میں شروع نہیں کیا بلکہ کئی سالوں سے جاری منصوبو ں کی رفتار بھی سست ہوتی جارہی ہے اور چین افغانستان او رایران سمیت دیگر ممالک میں نئی سرمایہ کاری کررہا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here