ستمبر 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا گیا تو پیپلز پارٹی کے وکلا نے لاہور ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست جمع کروائی مگر اس درخواست کو سننے کیلئے کوئی بھی جج تیار نہیں تھا کوئی بھی جنرل ضیا الحق کی ناراضگی مول لینے کیلئے تیار نہیں تھا تب ایک مرد مجاہد جسٹس کے ایم اے صمدانی نے اس کیس کی سماعت کی اور بھٹو کی احمد رضا قصوری کے قتل کے الزام میں گرفتاری پر ضمانت منظور کرلی اور یہ بات جنرل ضیا الحق کو بہت برُی لگی کیونکہ ضیا الحق کے دبائو کے باوجود انہوں نے ضمانت دے دی اور بھٹو کو آزاد کر دیا مگر تین دن کے بعد فوج نے بھٹو کو پھر لاڑکانہ سے گرفتار کرلیا۔جسٹس کے ایم اے صمدانی لاہور ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج تھے اور وہ چیف جسٹس بننے والے تھے مگر ضیاالحق نے ان کو عدالت سے نکال کر وفاقی لا سیکریٹری بنا دیا اور مولوی مشتاق کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا۔ایک دن جنرل ضیا الحق نے وفاقی سیکریٹریوں کا اجلاس طلب کیا جس میں جسٹس صمدانی بھی لا سیکریٹری کے طور پراس اجلاس میں موجود تھے، جنرل ضیا الحق ڈکٹیٹر نے تمام سیکرٹریوں کو دبا ئومیں لانے کیلئے کہا کہ آپ لوگ سدھر جائیں ورنہ میں آپ کی پینٹ اتار دوں گا۔سول بیوروکریٹس نے یہ سنتے ہی ایک دوسرے کے چہرے دیکھنے شروع کر دیئے ،اس دھمکی آمیز رویے پر چپ سادھ لی تب اس جسٹس نے ضیا الحق کو مخاطب کرتے کہا کہ آپ نے اپنے کتنے جنرلز کی پینٹیں اتاری ہیں؟ پہلے اپنے جنرلز کی پتلونیں اتاریں ہم خود بخود اپنی پتلونیں اتار دیں گے۔جسٹس کے ایم اے صمدانی کے ان الفاظ نے ضیا الحق کو برہم کر دیا اور وہ اجلاس ملتوی کرکے غصے سے اُٹھ کر چلے گئے جب سب وفاقی سیکرٹری جانے لگے تو جنرل ضیاالحق کے اسٹاف آفیسر میجر جنرل خالد محمود عارف (کے ایم عارف)نے جسٹس صاحب سے کہا کہ ضیا الحق آپ سے ملنا چاہتے ہیں جسٹس صمدانی جب ضیا الحق کے کمرے میں گئے تو ضیا الحق نے کہا کہ آپ نے اجلاس کے دوران غلط کیا ،اس پر معذرت کریں تو جسٹس صمدانی نے برجستہ جواب دیا کہ میں معذرت کرنے کیلئے تیار ہوں مگر آپ دوبارہ اجلاس بلائیں تو میں اپنے الفاظ پر معذرت نہیںکروں گا ،ایسا بولتے ہی جسٹس وہاں سے چلے گئے۔کچھ عرصے کے بعد 1981 میں اس شرط پر عدلیہ بھیج دیا کہ تم کو پی سی او کے تحت حلف لینا ہے مگر انہوں نے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کر دیا اور اپنے گھر آگئے۔تاریخ جسٹس کے ایم اے صمدانی کو سنہرے الفاظ میں آج بھی یاد کرتی ہے۔ جسٹس صمدانی 11 اپریل 2013 کو بروز جمعرات وفات پا گئے۔
میر طاہر مسعود صاحب! آپ نے جسٹس صمدانی مرحوم کے بارے میں جو تحریر شیئر کی ہے وہ بالکل درست ہے۔ میں آپ کی پوسٹ کی ہوئی تحریر کو دینی، جمہوری اور قومی امانت سمجھتے ہوئے اسے اپنی فیس بک اور واٹس ایپ پر شیئر کرنے کو ثواب سمجھتا ہوں۔ جسٹس صمدانی بڑے نڈر اور صاحبِ ضمیر جسٹس تھے۔ ان سے میری پہلی ملاقات میرے دوست کرنل زاہد خان جن کی بیگم فرخ خان آج دوسری بار قومی اسمبلی کی رکن ہیں کے گھر ہوئی تھی۔ وہ بہت سنجیدہ اور باوقار انسان تھے۔ 1992 میں جب میں مجاہدِ اول وزیرِ اعظم آزاد کشمیر سردار محمد عبدالقیوم خان مرحوم و مغفور کا مشیر تھا، میری شاعری کی کتاب شعلہ کشمیر جو فارسی، اردو ، کشمیری اور پنجابی زبان میں تھی کی تقریبِ رونمائی کشمیر سنٹر راولپنڈی میں منعقد ہوئی تھی۔ تقریب کی صدارت آزاد کشمیر کے وزیرِ اعظم نے کی۔ مہمانِ خصوصی وفاقی وزیرِ حکومت پاکستان محمود علی تھے۔ مہمانِ اعزازی مشہور شاعر سید ضمیر جعفری تھے۔ اس تقریب میں جسٹس صمدانی بھی تشریف لائے۔ وہ میری علمی اور ادبی خدمات کے معترف تھے جو میرے لیے باعثِ صد افتخار ہے۔ ایسے روشن ضمیر جج روز روز کہاں پیدا ہوتے ہیں۔ جنرل ضیا الحق جیسے آمر کے سامنے کلم حق کہہ کر رسول اللہ کی اس حدیث پر آپ نے عمل کیا کہ جابر حکمران کے سامنے کلم حق بلند کرنا افضل جہاد ہے۔ اللہ پاک جسٹس صمدانی کو غریقِ رحمت کرے۔ آمین۔ ایسے ہی عظیم لوگوں کے بارے میں حافظ شیرازی نے کہا تھا
ہرگز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جرید عالم دوامِ ما
٭٭٭