چین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ صدر ٹرمپ کے دور سے کرونا کے آغاز سے ہی جاری ہے ، جس کے دوران امریکہ نے کرونا پھیلانے اور اس کو پیدا کرنے کا الزام چینی لیبارٹریز کے ذمہ ڈالا جبکہ چین نے مسلسل ان الزامات کی نفی کی ہے ، اس کے بعد امریکہ نے چینی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر نا شروع کر دیںجس کے پیش نذرمعروف کمپنیوںکو امریکہ میں اپنے کاروبار کو ٹھپ کرنا پڑ گیا،دونوں ممالک کے درمیان یہ سرد جنگ کسی صورت ختم ہونے پر نہیں آ رہی ہے ۔ اس وقت امریکہ کی دو ممالک سے شدید ترین مخالفت چل رہی ہے جس میں چین اور ایران شامل ہیں اور اس تناظر میں اگر روسی صدر پیوٹن کے گزشتہ برس سے اب تک بیرون ممالک دوروں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پوٹن نے صرف دو ممالک کا دورہ کیا جن میں پہلا دورہ چین جبکہ دوسرا ایران کا تھا ، یعنی دنیا تقسیم ہوتے دکھائی دے رہی ہے ۔ امریکہ کو اس وقت مشکل ترین حالات کا سامنا ہے ، امریکہ کی جانب سے چینی مصنوعات پر ٹیکس میں اضافے کے باوجود چین نے اپنی امریکہ کو برآمدات کسی صورت ختم نہیں کیں اور اس کا نقصان امریکہ کو اُٹھانا پڑ رہا ہے ، امریکہ یوں تو دنیا کی واحد سپر پاور ہے لیکن دوسری جانب چائنہ دنیا کی سپر معاشی پاور ہے ۔ چینی مصنوعات سستی ہونے سے امریکہ میں عام شہری آسان زندگی گزار رہا تھا ، کم قیمت میں اچھی مصنوعات میسر ہوتی تھیں، لیکن ٹیکسز میں اضافے سے یہ مصنوعات اب عام امریکی کی پہنچ سے دور ہوگئی ہیں ،مہنگائی کے طوفان نے امریکیوں کی زندگی کو اجیرن کر دیا ہے ، ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے ، گیس ، سکولنگ ، کھانا ہر چیز پہنچ سے دور ہو رہی ہے ، مہنگائی کی وجہ سے نیویارک میں جرائم کی شرح بھی بہت زیادہ ہوگئی ہے ، جس سے بڑے پیمانے پر لوگ دوسرے ممالک کو کوچ کررہے ہیں ، یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے میکسیکو میں رہائش اختیار کر لی ہے کیونکہ امریکہ بہت مہنگا ملک بن گیا ہے ۔ دوسری طرف چین اور روس معاشی طور پر مستحکم ہو رہے ہیں ، یہاں تک کے کرونا وبا کے دوران چین کی معیشت مزیدمستحکم ہوئی ہے جبکہ دنیا بھر کی معیشتیں تنزلی کا شکار ہوئی ہیں ، یوکرائن کیخلاف جنگ کا آغاز کرنے والے روس کی معیشت پہلے کی نسبت کئی گنا بہتر اور مضبوط ہوئی ہے ، جنگ کے دنوں میں امریکی ڈالر کی قدر روسی مارکیٹ میں بہت زیادہ گرگئی ہے جبکہ روبیل مضبوط ہوا ہے ۔امریکہ بھی سپر پاور ضرور ہے لیکن صرف اسلحے کے زور پر دنیا کی سب سے بڑی طاقت تصور کیا جاتا ہے ، دنیا بھر میں اسلحے کی تجارت ، اسلحے کے استعمال سے امریکہ نے اپنی رعب داری کو قائم کیا ہے ، اس کے ساتھ اپنی افواج کے ساتھ نیٹو اور دیگر اتحادی ممالک کی حفاظت کے فرائض انجام دے کر امریکہ نے دنیا میں ایک ٹھیکیدار ہونے کا ثبوت ضرور دیا ہے لیکن امریکہ کے اندرونی حالات کچھ اور کہانی سنا رہے ہیں ۔ سپیکر نینسی پلوسی کے حالیہ دورہ تائیوان نے بھی حالات کو مزیدبگاڑ دیا ہے ، چین نے پلوسی کے دورہ سے قبل ہی امریکہ کو ان کے دورہ کے سنگین نتائج سے آگاہ کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود سپیکر نینسی پلوسی جب تائیوان پہنچی تو چینی لڑاکا طیاروں نے تائیوان کی فضائی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی ، ہو سکتا ہے کہ یہ ممکنہ حملے کی جانب پہلا قدم ہو، لیکن ان حالات میں امریکہ کو سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی صورتحال کے دوران خود کو ہم آہنگی کے ساتھ آگے لے جانا ہوگا ۔ اس وقت یوکرائن اور تائیوان دو ایسے ممالک ہیں جوکہ امریکہ سے مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کو جدید اسلحہ فراہم کیا جائے تاکہ وہ اپنی سرحدوں کے دفاع کے ساتھ امریکہ کے مفادات کا بھی تحفظ کر سکیں ، تائیوان کی جانب سے امریکہ سے ایف 35 اور ایف 16 طیاروں کی فراہمی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے ، اس کے ساتھ روس کے ساتھ جنگ میں مصروف یوکرائن نے بھی امریکہ سے گلہ کیا ہے کہ وہ انہیں جدید ہتھیار فراہم کرنے سے قاصر ہے ، جس کی وجہ سے انہیں روس کے خلاف بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے ، دوسری طرف بائیڈن اس صورتحال کے دوران بہت محتاط حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں وہ کسی بھی ملک کو اسلحہ فراہم کرنے کے موڈ میں نہیں ، چین کے ردعمل پر جان کربی نے وائٹ ہائوس میں بریفنگ کے دوران کسی بھی ممکنہ جوابی حملے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کسی قسم کا جارحانہ اقدام نہیں اٹھائے گا۔آئندہ وقت میں صورتحال مزید کشیدہ ہونے کے امکانات ہیں، امریکی حکام کو چاہئے کہ بہتر حکمت عملی بنا کر چائنہ سے معاشی پیکج بنائے تاکہ عام امریکن کی زندگی آسان ہو سکے ورنہ جس رفتار سے کرائم میں اضافہ ہورہا ہے مستقبل خوفناک نظر آتا ہے ۔
٭٭٭