گزشتہ دو دہائیوں سے دنیا بھر میں معیشت کی جنگ اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے، اس بات کا اندازہ اس سے لگائیں کہ دنیا کے مضبوط ترین معاشی ممالک بھی اس جنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے، مگر یہ حقیقت ہے کہ مضبوط معیشت کی وجہ سے یہ مال کسی نہ کسی طرح ان چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب رہے، مگر ترقی پذیر اور کمزور معیشت رکھنے والے ممالک کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔آپ سے دس سال پہلے پاکستان کی صورتحال آج کے پاکستان سے بہت مختلف ہوچکی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ متوسط طبقہ سفید پوشی کے ساتھ دکھ سکھ کی حالت سے گزرتے ہوئے کسی نہ کسی طور پر گزارا کر ہی رہا تھا، آج صورتحال متوسط طبقے کے لئے خط غربت سے نیچے بسنے والوں کی مانند ہو چکی ہے۔ اس بات پر بحث مباحثہ بہت ہو چکا کے دنیا بھر کی معیشت خراب ہوچکی ہے، اس کے اثرات عوام پر پڑھ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔
بظاہر نظر آتا ہے کہ دنیا میں جو معاشی جنگ جاری ہے اس کے نتیجے میں جو جو ممالک سمجھداری سے دیرپا اور ملکی مفاد پر مبنی معاشی پالیسیاں تشکیل نہیں دیں گے، آنے والے سال انہیں خانہ جنگی کے قریب سے قریب تر لے کر جائیں گے۔اس کی ایک بہت بڑی مثال ہمارے سامنے سعودی عرب جیسے ملک ہے جو اپنی معاشی حالت کو تبدیل کر تیل سے سیاحت پر لے کر جا رہا ہے، امریکہ اور یورپ جیسے ممالک کاروباری ویزوں کا اجرا کر رہے ہیں، ان ممالک کی تشویش ان کی پالیسیوں میں واضح طور پر نظر آتی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں آج بھی سیاسی خانہ جنگی تو جاری ہے مگر عوام کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے معاشی جنگ کے دستے کا سپاہی بننے کو کوئی بھی تیار نہیں۔اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ پاکستان کی معیشت جس سمت گامزن ہے، کیا وہ راستہ تباہی کے دہانے پر جا کر اختتام پذیر نہیں ہوتا۔ سیاسی بیانیوں کی مضبوطی کے لیے معیشت کو جس طرح تباہ کیا جا رہا ہے، وہ پاکستان کی مضبوط بنیادوں میں دڑایں ڈالنے کی وجہ نہیں بن رہا۔۔۔۔۔سمجھ سے بالاتر ہے پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے کی طرف گامزن ہے، ہماری سیاسی و عسکری قیادت اس کی رفتار کم کرنے کی بجائے مزید تیز کرنے پر لگی ہوئی ہے، یاد رکھیں کہ معیشت وہ رہے جس میں ہم سب بس رہے ہیں، جس دن یہ تباہی کے گڑھے میں گرے گی اس دن بچے کا کوئی بھی نہیں۔۔۔
٭٭٭