عاشورہ محرم کے دسویں دن کو کہتے ہیں ،محرم حرمت والا مہینہ ہے عام ذہن یہ سمجھتا ہے کہ عاشورہ کی اہمیت حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی وجہ سے ہے۔عاشورہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے پہلے محترم تھا۔البتہ یہ ضرور ہے کہ حضرت امام حسین علیہ اسلام کی شہادت سے اس کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے عاشورہ تخلیق آدم سے ہی محترم ہے زیادہ اہمیت اس وقت جب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعونیوں سے نجات عطا فرمائی۔فرعون بمعہ فوج غرق ہوگیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام دریا پار کر گئے وہ دن عاشورہ کا دن تھا لہٰذا بنی اسرائیل اس دن روزہ رکھتے تھے۔مدینہ طیبہ آنے سے پہلے ہی عاشورہ کا روزہ مسلمانوں پر فرض تھا۔جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوگئے تو سرکار دو عالم نے اس کو جاری رکھا۔بلکہ ارشاد فرمایا اگلے سال اللہ نے زندگی عطا کی تو انشاء اللہ دو روزے رکھوں گا نو دس یا دس گیارہ اور پھر فرمایا اگر مسلمان ایمان ویقین کے ساتھ عاشورہ کا روزہ رکھیں گے ان کے پچھلے سال کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔اسلاف نے دس محرم کے حوالے سے بہت سی باتیں لکھی ہیں۔مثلاً حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پر اتارا گیا اس دن دس محرم تھی حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی زمین پر لگی عاشورہ کا دن تھا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جس دن آگ گلزار ہوئی تھی وہ دن بھی عاشورہ کا تھا۔قیامت بھی عاشورہ کے دن ہی قائم ہوگی۔ان تمام فضلیتوں پر بھاری فضلیت یہ ہے کہ ہمارے پیارے نبیۖ نے فرمایا اس دن کا روزہ رکھنا پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔اس سے بڑی فضلیت کیا ہوگی لہٰذا ہمیں اس دن روزہ سنت نبوی سمجھ کر رکھنا چاہئے۔اور جو دوسری بات سرکار دو عالمۖ نے فرمائی وہ یہ ہے کہ عاشورہ کے دن اپنے اہل وعیال اپنے خدام اگر توفیق ہو تو خاندان کے لئے اپنے دسترخوان کو وسیع کرے۔اگر وہ ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کا رزق وسیع کردے گا۔اپنے فضل وکرم سے مالا ماال کردیگا۔جس وقت عاشورہ کی یہ فضلیت نبی پاکۖ نے بیان فرمائی تھی حضرت امام حسین علیہ السلام ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے حضرت امام حسین کی شان ایک الگ حقیقت ہے جو انشاء اللہ اگلے ہفتے کی تحریر میں ہوگی۔سردست اس عاشورہ کے دن کو سنت نبی سمجھ کر منایا جائے روزہ کا اہتمام کیا جائے اور اہل وعیال پر وسعت کی جائے۔
٭٭٭