امریکہ میں ایک طرف کرونا در کرونا وبائوں نے مت ماری رکھی ہے کہ جس میں کرونا وبا اپنی نت نئی شکل بدل کر تباہی مچا رہی ہے کہ جس سے اب تک ساڑھے چھ لاکھ امریکی عوام لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ امریکہ کے پاس وافر مقدار میں ویکسین پائی جارہی ہے جس سے امریکی دقیانوسی اور بنیاد پرست ویکسین لگوانے سے انکار کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ابھی تک 30 فیصد امریکی عوام بنا ویکسین گھوم رہے ہیں جو اپنے آپ کے علاوہ دوسروں کو بھی بیمار کر رہے ہیں حالانکہ امریکی انتظامیہ نے وافر مقدار میں ویکسین ٹیکوں کے علاوہ اربوں کھربوں ڈالر عوام پر خرچ کئے ہیں جس کی وجہ امریکی معیشت دبائو میں آچکی ہے۔جس کی بدولت ملک بھر میں اشیائے استعمال مہنگی ہو رہی ہیں۔ریاستوں اور مرکز کے مالی بجٹوں میں اضافہ ہورہاہے۔عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔دوسری طرف آئے دن آگ ،بارش، سمندری طوفانوں نے تباہی مچا رکھی ہے۔جس کی زد میں آدھا ملک آیا ہوا ہے۔جس سے سبزا ختم ہو رہا ہے۔آسمان پر دھوئیں کے بادل چھائے رہتے ہیں جو کیلیفورنیا سے نیویارک تک سفر کرتے نظر آتے ہیں جس سے ہوائی آلودگی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ مزید برآں امریکہ کو سمندری اور ہوائی طوفانوں نے بھی گھیر رکھا ہے۔جس سے بعض علاقے زیرآب یا ہوائی طوفانوں سے لوگوں کے جان ومال گھر بار برباد ہو رہے ہیں۔بارشوں سے بے تحاشہ نقصانات پہنچ رہے ہیں ابھی امریکہ میں وبائوں، طوفانوں، سیلابوں کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک افغانستان پر طالبانوں کا قبضہ ہوگیاکہ جس میں امریکی حمایت یافتہ غنی حکومت نیست ونابود ہوگئی جن کی تین لاکھ فوج طالبان کی تیس ہزار آزادی پسندوں کے سامنے ڈھیر ہوگئی جو اپنااسلحہ اور وردیاں چھوڑ کر فرار ہوگئے جس کی وجہ سے آج افغانستان بنا فوج اور پولیس قائم ہے ۔ہر طرف بھگڈر مچی ہوئی ہے۔ہر افغانی ملک چھوڑ کر بھاگ رہا ہے بچا کھچا افغان خوف زدہ اور ڈرا ہوا ہے۔کابل ایئرپورٹ پر ہزاروں افغان ملک چھوڑ کر بیرون ملک جانے کیلئے جمع ہیں۔ پاکستان میں مزید مہاجرین کا دبائو بڑھ چکا ہے۔جس سے لگتا ہے کہ یہ کیسا انقلاب یا تبدیلی ہے کہ عام عوام میں خوف وہراس ہے کہ ہر شہری ملک چھوڑ چھوڑ کر بھاگ رہا ہے۔ جو ماضی میں چینی یادوسرے ملکوں میں انقلابات سے یہ سب کچھ نہ ہوا تھا۔شاید طالبان کا ایسا ایجنڈا نہیں ہے کہ جس سے عوام کو امید ہو کہ ان کو اب روٹی، کپڑا اور رہائش ملے گی۔صرف اسلام کے نفاذ سے کام نہیں چلتا ہے جب تک عوام کے بنیادی حقوق نہ پورے کیے جائیں گے۔بعض ممالک خصوصاً مغربی ممالک میں مذہبی روایات ناکام ہوگئیں کہ جو عوام کے مسائل حل نہ کر پائے تھے آج افغانستان میں بھی یہی حالت ہے کہ افغان عوام جو گزشتہ چار دہائیوں سے ایک جہاد کے نام سے چھیڑی ہوئی شیطانی جنگ جو امریکہ کے مفادات کے لیے لڑی گئی تھی اس کی وجہ سے بیس پچیس لاکھ افغان مارے گئے۔چالیس لاکھ کے قریب ترک وطن یا جلاوطن ہوئے اس جنگ نے افغانستان کو تباہ وبرباد کردیا جسکو آج کوئی بھی طاقت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔کہ اسی کی دہائی میں چھیڑی ہوئی جنگ کی تباہ کاریوں کا کون ذمہ دار ہے؟ ان جنگوں کو افغانوں نے کبھی جہاد اور کبھی طالبان کے نام پر لڑا ہے۔ کبھی ایک گروپ قابض ہوا کبھی دوسرا گروپ کابل پر قابض ہوا۔وہ حکمران کہلایا جس میں امریکہ کو اس شیطانی جنگ میں دو کھرب ڈالر اور ڈھائی ہزار فوجی جانوں کا نقصان ضرور پہنچایا ہے جس کا نتیجہ صفر نکلا کہ وہ آج بیس سال کے بعد امریکہ اپنی آخری فلائیٹ کے ذریعے31اگست کو افغانستان سے بھاگ رہا ہے۔
تاہم امریکہ کو ویت نام کے بعددوسری بڑی عسکری اخلاقی اور خارجی شکست فاش ہوچکی ہے جس کا مظاہرہ آج کابل ایئرپورٹ پر نظر آرہا ہے کہ آج امریکہ کی مقرر کردہ وقت اور تاریخ31اگست کو افغانستان چھوڑنا پڑ رہا ہے۔آج افغانستان پر نائن الیون کے نام پر مسلط جنگ کا خاتمہ ہوچکا ہے۔جس میں مائی وے یا ہائی وے کا اعلان ہوا تھا۔جس کے سامنے پاکستانی جنرلوں کا ٹولہ جنرل مشرف کی شکل میں ڈھیر ہو گیا تھا۔جس کے آج کے مشیر شیدا ٹلی جیسے لوگ پاکستان کے عوام کو امریکہ کے حملوں سے خوف زدہ کر رہے تھے جنہوں نے امریکہ کو پاکستانی اڈے فراہم کیے جس کی وجہ سے امریکہ ہوائی جہازوں کی کارپٹ بمباری سے ہزاروں افغان مارے گئے آج پھر یہی ٹولہ عمران خان کی شکل میں نئی نوکری کا خواہشمند ہے کہ امریکہ اگلا کیا مشن دے گا تاکہ ہم کرایہ کی فوج کو پھر کسی دوسری خانہ جنگی میں اتار دیں۔بحرحال طالبان کے ترجمان نے عام معافی کا اعلان کر رکھا ہے۔افغان عوام کو واپس اپنی اپنی ملازمتوں پر بلایا جارہا ہے۔افغانستان کی ترقی میں چین اور ترکی کو ترجیح دی گئی ہے جس میں طالبان کے خالق پاکستان کا نام دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے۔جس کا وزیر خارجہ قریشی افغانستان کی بجائے ازبکستان اور تاجکستان کے حوالے کرتا نظر آرہا ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ طالبان بھی پہلے والے افغان حکمرانوں کی طرح پاکستان پر اعتماد اوراعتبار نہیں کر رہے ہیں ورنہ پاکستان کا نام سب سے پہلے لینا چاہئے تھا جو شاید سمجھتے ہیں کہ یہ وہی پاکستان ہے جو فرنگیوں کی فوج کا حصہ تھا جو آج بھی مغربی طاقتوں کا حصہ ہے جس کو مغربی طاقتیں جب اور جس وقت چاہتی استعمال کر لیتی ہیں چاہے وہ سینٹو، سیٹو ہو یا افغان جنگ یا دہشت گردی کی جنگ ہو پاکستان ہمیشہ دستیاب رہتا ہے۔اس لیے اس خطے کا کوئی بھی ملک پاکستانی حکمرانوں پر بھروسہ نہیں کرتا ہے ۔اس لیے طالبان یہ بھی شاید پاکستانی موجودہ حکمرانوں پر اعتماد نہیں کر رہے ہیں ورنہ پاکستان نے طالبان کی پرورش وتربیت میں جو کچھ کیا ہے جس میں ستر ہزار پاکستانیوں اور چھ ہزار فوجی جوانوں کی جانیں دی ہیں مگر نتیجہ صفر نکلا ہے۔