فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
18

محترم قارئین! حضور محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ نے اپنی ساری زندگی درس وتدریس اور عشق مصطفیٰۖ کی ترویج میں گزاری اور ہر موقع پر گستاخان مصطفیٰۖ کو مدلل اور دندان شکن جوابات دیئے اور لوگوں کے نجی دکھ درد کا مداویٰ بھی فرماتے رہے۔ ہر دوسری مصروفیت کو ادا کرنے کے باوجود تدریسی معاملات کو پس پشت نہیں ڈالا۔ آپ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ دنیا کا مال و دولت خاک سے پیدا ہوا اور دولت علم دین سینہ مصطفیٰ علیہ الصلواة والسلام سے اس دولت سے کون سی دولت بہتر ہے جو سینہ رسول علیہ الصلواة والسلام سے پیدا ہوئی۔ لہٰذا علم دین پڑھنا پڑھانا آپ رضی اللہ عنہ کی روح کی غذا تھی، کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ حقیقت میں آپ دین کی تبلیغ کا ذریعہ اسی کو سمجھتے تھے۔ اسی لئے آپ رضی اللہ عنہ نے مدارس بنائے۔ علماء و پر توجہ دی ایسے ایسے قد آور علماء اہل سنت وجماعت کو دیئے کہ جنہوں نے پوری دنیا میں فیضان اعلیٰ حضرت اور فیضان محدث اعظم رضی اللہ عنھا کو پھیلایا کہ آج جدھر بھی جائو آپ رضی اللہ عنہ کے دیوانے ہر طرف نظر آتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کو اخلاص کی ایسی برکت عطا ہوئی ہے کہ جہاں بھی آپ رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی آجائے شیطان اور اس کے جیلوں کے چہرے مُرجھا جاتے ہیں جبکہ عاشقان مصطفیٰۖ کے چہروں اور رونق آجاتی ہے یقیناً آپ رضی اللہ عنہ بے مثل محدث، عظیم فقیہ، کہنہ مشق مدرس، کامیاب مناظر، بالغ نظر مفتی، بہترین مصنف، عظیم خقق ہونے کے ساتھ ساتھ بافیض شیخ طریقت اور اعلیٰ پائے کے خطیب تھے۔ چاہتے تو دین کی خدمت کے لئے کوئی اور میدان تدریس کی جگہ منتخب فرما لیتے لیکن اس شعبے میں اصولیت کے باوجود محط الرجال دیکھتے ہوئے اپنے آپ کو دینی علوم کی تدریس کے لئے ہمہ وقت وقف کر دیا تھا۔ خوش قسمتی سے فارغ التحصیل ہوتے ہوئے ہی آپ نے اپنے مادر علمی دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف سے1352ھ/1933میں تدریس کا شاندار آغاز فرمایا:
کسی درسگاہ میں معلم کے پہلے درس کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے طلبہ پہلے درس میں ہی استاذ کے بارے میں رائے قائم کرلیتے ہیں۔ جسے بعد میں تبدیل کرنا مشکل ہوتا ہے اس تناظر میں حضرت شیخ الحدیث کے پہلے درس کی روداد مولانا علامہ محمد ابراہیم خوشتر کے الفاظ میں ملاحظہ ہو۔ جامعہ منظر اسلام جہاں آپ کو مطالعہ کے لئے لالٹین فراہم کی گئی تھیں اب آپ کو وہاں علم کی روشنی پھیلانے کے لئے مقرر کیا جاچکا تھا۔ بریلی کی صبح کہیئے یا علم وفضل کے سورج کا طلوع کہ نئے مگر مدرس اعظم کی آمد سے منظر اسلام میں غیر معمولی چہل پہل تھی۔ ہدایہ اخیرین کا درس شروع ہونے والا تھا۔ طلبہ متن اور شرح کی عبارتوں کو یاد کئے ہوئے سوال وجواب کے ہتھیار سے آراستہ اپنے استاد گرامی کے سامنے حاضر تھے۔ حضرت سیدی واستاذی شیخ الحدیث رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ خود راقم الحروف سے بیان فرمایا کہ طلبہ اس سے پہلے کہ مسائل فقہ میں کچھ کہتے۔ شرح ومتن میں الجھتے، اعتراضات کرتے آپ نے فقہ اور اصول فقہ سے متعلق چند سوالات ارشاد فرمائے۔ ہدایہ اخیرین کے طلبہ دم بخود لاجواب تھے۔ فقہ دانی کا سارا نشہ ہرن تھا اور انہیں یہ شعور ہو چلا تھا کہ آج قطرے نے بحر علم کے ساحل کو پالیا ہے۔ ادھر یہ پرلطف چھیڑ چھاڑ تھی اور ادھر حضرت محدث اعظم رضی اللہ عنہ کے مرکز آرزو، مرجع خواص و عوام حجتہ الاسلام علامہ مولانا شاہ محمد حامد رضا خان رضی اللہ عنہ اس علمی منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ فرط مسرت سے آپ پھرلا نہ سما رہے تھے۔ اپنے صاحبزادے جیلانی میاں سے بار بار ارشاد فرماتے تھے دیکھو کل کی بات ہے مولانا نے اسی مدرسہ میں میزان شروع کی تھی اور آج خود علم کے میزان دکھائی دے رہے ہیں۔ ادھر مسلسل داد تحسین تھی اور ادھر شیخ الحدیث تقریر ہدایہ اخیرین میں فقہ اور موضوع فقہ پر سیر حاصل گفتگو فرما رہے تھے۔ تدریس کا پہلا دن اور ہدایہ اخیرین جیسی عظیم کتاب کا درس یہ آپ کے عظیم مدرس ہونے کی بہت بڑی علامت ہے۔
حضرت محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حمداللہ پڑھا رہے تھے۔ حضرت حجة الاسلام رضی اللہ عنہ ایک طرف کھڑے ہو کر من رہے تھے اور پھر اچانک جلوہ افروز ہوئے اور فرحت ومسرت سے فرمایا: مولانا میرے خیال میں ابھی تمہارے متعلق آیا تھا کہ آپ جو فتویٰ لکھتے ہیں اس پر آپ مہر میں یہ کندہ کروائیں۔
بند سر بخاک در داراحمد۔کہ جملہ رسل راست سردار احمد یا یوں لکھیں
سردادر سر سردار احمد۔ تمامی رسل راست سردار احمد حضرت حجة الاسلام کے قلم سے
بجاں دار و دلدار وسردار احمد۔ کہ جملہ رسل راست سردار احمد۔ تمام رسل راست سردار احمد
کتنی بڑی شان ہے حضرت محمد اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ کی کہ اعلیٰ حضرت کے شہزادے اور آپ کے استاد محترم جن کی زیارت نے آپ کی زندگی مطھرہ میں انقلاب بپا کیا کہاں پٹوار کا کورس اور کہا محدث اعظم ہونے کا عظیم ٹائیٹل۔ اور پھر کیا یہ نوازشیں؟ شرح عقائد، خیالی، امور عامہ، حمد اللہ، قاضی مبارک، صدرا، ملاحسن،ملا جلال، شمس بازغہ شرح جامی، ہدایہ اخیرین اور کتب احادیث اپنی خداداد استعداد سے ایسی پڑھائیں کہ طلبہ کے دلوں میں آپ کے علم کا سکھ بیٹھ گیا۔ ان کتب کی تدریس میں حلقہ علماء میں باعث افتخار ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ عنہ کے درجے بلند فرمائے اور ہمیں آپ کے فیضان سے وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here