ہماری یہ وسیع و عریض دنیا ، اس اکیسویں صدی میں، جدید مواصلات اور تیز ترین ٹرانسپورٹیشن سسٹمز کی وجہ سے ایک چھوٹا سا گائوں لگتی ہے۔ اس گلوبل ولیج میں تفریح کی کوئی انوکھی یا نئی جگہ بنانا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ عربستان کے لوگ چونکہ ترقی کی اس دوڑ میں تھوڑا سا پیچھے رہ گئے تھے، اس لئے اب مغربی دنیا سے مقابلے کیلئے انہیں اپنا منفرد مقام بنانے میں خاصی دقت پیش آرہی ہے۔ آج دبئی کے مراکل گارڈن (Miracle Garden) کی سیر کرنے کا موقع ملا تو حیرانی ہوئی کہ دنیا کے بے شمار فلورل گارڈنز کی موجودگی میں، دبئی والوں نے قدرتی پھولوں سے مزین اپنا ایک ایساخوبصورت اور منفرد پارک بنا لیا ہے، جسے ہزاروں لوگ وزٹ کرنے آتے ہیں اور خوب محظوظ ہوتے ہیں یہاں تو اسے قدرتی پھولوں کا دنیا کا سب بڑا باغیچہ قرار دیا جا رہا ہے۔ویسے تو دبئی کے ہر تفریحی مقام پر چارج اور پھر ایکسٹرا چارج بھی موجود ہے لیکن زیادہ تر جگہوں کی سیر کے بعد یوں لگتا رہا کہ جیسے پیسے پورے ہوگئے ہوں۔ مراکل گارڈن بھی یقینا ایسا ہی ایک تفریحی مقام ہے جہاں بندہ اپنے پیسے کی قدر وصول کر کے ہی باہر نکلتا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہاں کا پھولوں کا سیٹ اپ روزانہ تبدیل کیا جاتا ہے اور تر و تازہ پھول ہی استعمال کئے جاتے ہیں۔آج دنیا کے بلند ترین اسٹرکچر، برجِ خلیفہ پر چڑھنے کا پروگرام بنا ہوا تھا۔ ایک سو تریسٹھ منزلہ، یہ بلند و بالا عمارت اب کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اس کی منزل پر پہلا آبزرویشن ڈیک بنا ہوا ہے، جس پر پہنچ کر اکثر لوگ اس ٹاور کے چاروں طرف کے مناظر سے محظوظ ہوتے ہیں۔اس شہرِ دبئی کا دوسرا نام اگر عمار (Emaar) رکھ دیا جائے تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوگی۔ برجِ خلیفہ سمیت اس علاقے کی بیشتر بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر اسی ایک کمپنی عمار پراپرٹیز نے کی ہے۔ تعمیرات کی دنیا کا یہ بہت بڑا نام، یقینا اب پوری دنیا سے اپنا لوہا منوا چکا ہے۔ ہم جس ٹاور کے تینتالیسویں فلور پر ٹھہرے ہوئے ہیں، وہ بھی عمار کا تعمیرشدہ ہے اور بہت خوب بنا ہوا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ انسان کی قوتِ تسخیر کے مقابلے میں باقی ساری مخلوقات زیر ہیں۔عربستان کے ان بلند بالا بروج کی تعمیر میں حدید(اسٹیل)کا بڑا کلیدی کردار ہے۔ شاید اسی لئے انسان کیلئے حدید کی افادیت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے۔ کاش یہاں سوشل جسٹس کے اسلامی اصولوں کے مطابق تمام انسانوں میں عدل اجتماعی بھی قائم رکھا جاتا تو یہ علاقہ جنت نظیر بن جاتا۔برجِ خلیفہ کی بلندیوں سے غروبِ آفتاب کا نظارہ، ایسا سحر طاری کرتا ہے کہ اچھے خاصے مہنگے ٹکٹ کے پیسے پورے ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے زیادہ تر لوگ مغرب سے ایک گھنٹہ قبل کا ٹکٹ لے کر، پہلے دن کی روشنی اور پھر اس غروبِ آفتاب کے خوبصورت منظر سے خوب محظوظ ہو تے ہیں۔ تا حدِ نگاہ سمندر میں ڈوبتے ہوئے سورج کو اتنی بلندی سے دیکھنے کیلئے بہت سے سیاح دور دور سے سفر کر کے یہاں آتے ہیں۔آج کے دن کی آخری بڑی ایکٹیو ٹی، دبئی کریک کے خوبصورت پانیوں میں کروز ڈنر سے مستفید ہونا تھا۔ ہمارے کچھ پاکستانی دوستوں نے ہماری اس ایکٹیو ٹی کیلئے خصوصی انتظام کیا ہوا تھا۔ دو تین گھنٹے کے اس کروز میں، دیسی کھانوں کی دل کو بھانے والی خوشبوں نے ماحول کو کھانا کھانے کیلئے خاصا سازگار بنائے رکھا۔ اس کروز کے دوران آتش بازی کا انتظام بھی تھا۔ دسمبر کی تعطیلات کو مزید بہتر بنانے کیلئے حکومتِ دبئی روزانہ کی بنیاد پر اس آتش بازی کا اہتمام کرتی ہے۔دبئی کی گہما گہمیوں میں پورا دن گزارنے کے بعد، اپنے وطن کی یاد کچھ زیادہ ہی آنا شروع ہوگئی۔ احمد سلمان صاحب کی یہ آزاد نظم پیش کرکے اجازت چاہتا ہوں کہ:
یہ کیا کہ سورج پہ گھر بنانا
اور اس پہ چھائوں تلاش کرنا
کھڑے بھی ہونا تو دلدلوں پہ، پھر اپنے پائوں تلاش کرنا
نکل کے شہروں میں آ بھی جانا
چمکتے خوابوں کو ساتھ لے کر، بلند و بالا عمارتوں میں
پھر اپنے گائوں تلاش کرنا
٭٭٭