دہلی لال قلعہ کی وارثہ میں ہوں،سلطانہ بیگم!!!

0
78
حیدر علی
حیدر علی

کہنے کو تو یہ پاکستان پرائم منسٹر ہاؤس ہے ، لیکن ایک برطانوی نو بیاہتا جوڑے نے اِس پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے، تفصیل اِس کی یوں ہے کہ ایک پاکستانی نژاد برطانوی اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ پاکستان آیا تھا ، اسلام آباد میں قیام کے دوران اُس نوجوان نے اپنی گرل فرینڈ کو پرائم منسٹر ہاؤس دکھاتے ہوے یہ کہا تھا کہ یہ اُس کا آبائی گھر ہے، اور جب بھی وہ چاہے اُس کے باسی کو نکال باہر کر کے اُس گھر میں قیام کر سکتا ہے، پاکستانی نوجوان نے برطانوی لڑکی سے شادی کے بعد اپنا پیپر وغیرہ مکمل کرلیا اور پھر رفو چکر ہوگیا، بادل نخواستہ برطانوی لڑکی اُسے تلاش کرتے کرتے پرائم منسٹر ہاؤس پہنچ گئی اور ہر ایک کو یہ کہنے لگی کہ وہ اِس گھر کو خالی کردیں ، کیونکہ اِسکا مالک اُس کا شوہر ہے، اور اب وہ اِس گھر میں قیام کرے گی. یہ بات وزیراعظم عمران خان کے کان تک پہنچ گئی . وہ اپنی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کر رہے تھے، اور وہ وہاں سے دوڑتے ہوے اپنے پرائم منسٹر ہاؤس کو بچانے کیلئے پہنچ گئے، اُس لڑکی سے اُن کی تکرار ہوئی اور وہ لڑکی اُن کو مغلظات سناتے ہوے رخصت ہوگئی، وزیراعظم عمران خان نے فورا” اپنے عملے کو یہ حکم دیا کہ وہ رات کو بھی پرائم منسٹر ہاؤس میں سویا کرینگے ، اور اُس کی رکھوالی کرینگے،
بہر کیف یہ واردات تو اسلام آباد میں وقوع پذیر ہوئی ، لیکن کلکتہ کی ایک خاتون سلطانہ بیگم نے تو سلطنت مغلیہ کے تمام محلات ، قلعوں اور جائیدادوں کو اپنی ملکیت میں لینے کا مقدمہ دائر کر دیا ہے. فی الحال وہ خود کلکتہ کے پسماندہ علاقے کے ایک دو کمرے کی جھگی میں رہائش پذیر ہیں، اور چھ ہزار روپے ماہانہ کی پنشن میں اُن کے گھر کے اخراجات چلتے ہیں. لیکن بادی النظر میں اُن کی دلیل معقول نظر آتی ہے کیونکہ اُن کے پاس نکاح نامہ کے جو کاغذات موجود ہیں اُس کے تحت اُن کی شادی سلطنت مغلیہ کے آخری بادشاہ کے پر پوتا مرزا محمد بدر بخت سے انجام پائی تھی،اُس وقت اُن کی عمر 14 اور سلطنت مغلیہ کے آخری چشم و چراغ کی عمر 32 سال تھیتاہم بدقسمتی سے مرزا محمد بدر کا انتقال 1980ء میں ہوگیا اور اُسی وقت سے اُن پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، وہ بارہا ہندوستان کی حکومت کو یہ باور کرانے کی کوششیں کیں کہ کس طرح وہ سلطنت مغلیہ کی آخری وارثہ کو صرف چھ ہزار روپے ماہانہ کی پنشن پر ٹرخادیتی ہے، رہنے کیلئے نہ کوئی محل ، نہ ہی کوئی نوکر چاکر اور نہ ہی سواری کیلئے کوئی گھوڑا گاڑی.اُنہوں نے اے ایف پی کے نمائندے سے باتیں کرتے ہوے کہا کہ ” ذرا تصور تو کیجئے کس طرح سلطنت مغلیہ جس نے تاج محل بنایا آج اُس کی وارثہ کس طرح کس مپرسی کے عالم میں رہ رہی ہے، سلطانہ بیگم نے کورٹ میں یہ مقدمہ دائر کر دیا ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں دہلی کے لال قلعہ جس میں سلطنت مغلیہ کے سپاہیوں کا ڈیرا رہتا تھا، وہ اُس کی مالکہ ہیں،آج وہ ہندوستان کی فوج کے افسران کا نشیمن ہے، سینکڑوں کی تعداد میں اُن کا لنچ ٹفن کیرئیر میں اُن کیلئے روزانہ آتا ہے تاہم اُن کی نظریں پاکستانی کمانڈوز کا ہمیشہ تعاقب کرتی رہتی ہیںکہ کوئی پھڈا نہ ہوجائے بہرکیف سلطانہ بیگم کی دلیل انتہائی ٹھوس ہے کہ اُنکے مرحوم شوہر کا شجرہ نسب سلطنت مغلیہ کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر سے ملتا ہے لیکن شومئی قسمت یہ ہے کہ بہادر شاہ ظفر کی 1837 ء میںتا جپوشی کے وقت سلطنت مغلیہ بذات خود سمٹ کر لال قلعہ تک رہ گئی تھی، اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورے ہر جگہ قابض ہوگئے تھے اور ٹھیک اُس کے دو عشرے بعد غدر ہندوستان کی معرکہ آرا جنگ شروع ہوگئی تھی، ہندوستانی سپاہی اپنے 82 سالہ بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی کمان میں لڑ رہے تھے ، ضعیف المرگ بادشاہ انگریزوں سے جنگ لڑنے کے بجائے دِن بھر نظمیں اور

غزلیں لکھنے میں مصروف رہتے تھے، کبھی کبھی وہ لال قلعہ میں اپنے سپہ سالاروں کے ساتھ بھنگڑا بھی ڈالا کرتے تھے، اُنہیں علم ہوگیا تھا کہ اُن کا تختہ گول ہونے والا ہے.انگریز فوج نے ایک ماہ کے عرصے میں دہلی کے گرد حصار ڈال دیا تھا ، اور بغاوت کو کچل ڈالا تھا. بہادر شاہ ظفر کی دس اولادوں کو ہتھیار ڈالنے کے باوجود قتل کر دیا گیا تھا۔
لال قلعہ سے متعلقہ عمارتیں غدر 1857 ء کے بعد مسمار کردیں گئیں تھیں یا اُن کا اِس طرح خیال
نہیں رکھا گیا تھا جس کی وہ مستحق تھیں.تاہم بعد ازاں سامراجی قوتوں نے اِن کی تعمیر نو کاحکم صادر کیا تھا،
اور اُسی کے ساتھ لال قلعہ اور دوسری عمارتیں بھارت کی آزادی کی نشانیاں سمجھیں جانے لگیں،سلطانہ بیگم کے اپنے مقدمے کے بارے میں دلیل یہ تھی کہ ہندوستان کی حکومت اُن کی جائیداد پر غیر قانونی طور پر قابض ہے ، اور جس کا قبضہ اُنہیں منتقل کر دینا چاہیے تاہم دہلی ہائی کورٹ نے اُن کے دلائل کو وقت کا ضیاع قرار دے کر یکسر مسترد کردیا . لیکن مقدمہ کے دوسرے حصے یعنی سلطانہ بیگم کا شجرہ نسب سلطنت مغلیہ سے منسلک کرنے کے بارے میں کورٹ کسی بھی رائے دینے میں ناکام رہ گیا، عدالت نے یہ عذر پیش کیا کہ کیوں نہیں بہادر شاہ ظفر کے رشتہ داروں نے اِس طرح کے مقدمے کو اُن کی جلا وطنی کے 150 سال تک عدالت میں نہیں لائے،سلطانہ بیگم کے وکیل ویوِک مورے نے کہا ہے کہ مقدمہ بازی چلتی رہے گی. اُنہوں نے کہا کہ سلطانہ بیگم نے اُنہیں فون پر بتایا ہے کہ وہ وہ ہائیر کورٹ کے بنچ سے استدعا کرینگی کہ وہ دہلی کورٹ کے آرڈر کو مسترد کردے.اُنہوں نے کہا کہ انصاف اُنہیں ضرور ملے گا، اور اگر نہ ملا تو اُنہوں نے کہا ہے کہ وہ وزیراعظم نریندر مودی کے گھر ”پنچاوتی” کے سامنے خود سوزی کر لینگی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here