پرانے دن
ختم ہوئے !!!
اردو زبان نہ صرف رابطے کی زبان ہے بلکہ اس کے اندر اتنی خطافت ہے کے یہ ابھی تک ہماری ثقافت سے جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان سے نقل مکانی کرنے والے افراد جو دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر جگہ اس زبان کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ امریکہ برطانیہ اور کینیڈا میں انگلش کا اتنا استعمال ہے کے انگریزی بولتے بولتے جب اردو بولتے بیٹھو تو وہ خزانہ ہاتھ نہیں آتا جو ہماری اردو زبان میں موجود ہے۔ پھر بھی جب سے میں امریکہ آئی ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کے اردو کی پاسبانی کے لئے ہمیشہ لوگوں کھڑے ہوئے ہیں۔
سن ستر میں زیادہ تر پڑھے لکھے افراد نے امریکہ آکر اپنی زبان بولنے والوں کی کمی محسوس کی ایسے میں انڈیا اور پاکستان سے امریکہ آکر بسنے والوں نے اپنے آپ کو ایک دوسرے سے قریب سمجھا۔ دفتر ہوکے پڑوس آپس میں بات کرنے کے لئے یہی کافی تھا کے انگریزی بولنے والوں کے درمیان اردو بولنے والا کوئی نظرآجائے تو دل خوشی محسوس کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے جب میری پہلی جاب ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں ہوئی تو مجھے انگلش بولنے میں جھجک محسوس ہوتی تھی۔ ایسے میں اپنے اردو بولنے والے ساتھی کے ساتھ ایک Bondingمحسوس ہوتی تھی چاہے وہ انڈیا کا ہو یا پاکستان کا اور ہم سب ایک دوسرے سے بڑی اپنائیت محسوس کرتے تھے جو بات یا کام ہمارا پاس یا سپروائزر سمجھا کر جاتا کبھی نہ سمجھ آتا تو اپنے اردو بولنے والے ساتھی کے پاس پہنچ جاتے اور ان سے مدد طلب کرتے۔ وہ بھی خلوص سے مدد کرتے۔ ساتھ لنچ کرتے اور بہت اچھا محسوس کرتے۔ چاہے وہ انڈیا کے ہوں یا پاکستان کے ان کے اندر اپنائیت محسوس ہوتی۔ اب تو بے شمار لوگ آگئے ہیں۔ اس لئے سب کے پاس بہت چوائس ہے۔اس وقت جب80کی دہائی میں ہم آئے تھے تو صرف اردو بولنے والے ہی کافی ہوتے تھے کتنی دوستیاں اس طرح ہو گئیں ایک ایک گھنٹے کے فاصلے بھی ہوں تو ایک دوسرے کے ہاں پہنچے اپنے کھانے کھائے مزے سے وقت گزارا اور گھر آگئے۔ اب تو ہم زبان کو دیکھ کر منہ ہی پھیر لیتے ہیں۔ اتنے لوگ ملتے ہیں کے قدر ہی ختم ہوگئی۔ اس لئے اس وقت جو بھی کلچرل پروگرام ہوتے تھے ان سے بہت پر جوش طریقے سے سب وابستہ ہو جاتے تھے۔ اور ان کی کامیابی کا راز ہی یہی تھا۔ بڑے بڑے مشاعرے کرائے گئے بڑے بڑے شاعر آئے۔ قوالیاں کرائی گئیں۔ پاکستان ڈے پریڈ چودہ اگست کے پروگرام سب ہی انتہائی کامیاب ہوتے تھے۔ کیونکہ سب نئے آئے تھے اردو سے محبت تھی مشاعروں میں انڈیا اور پاکستان کے لوگ موجود ہوتے تھے۔ خوب دل کھول کر دوستیاں تھیں۔ وقت کے ساتھ لوگ بڑھے، خلوص کم ہوا، صرف اردو کے لئے مشاعرے بند ہوگئے۔ پیسوں کے لئے شروع ہوگئے۔ تمام گانے قوالیاں اور غزلیں گانے والے صرف پیسوں کے لئے آنے لگے۔ اردو کی محبت میں نہیں۔ آج نیویارک کیا پورے امریکہ کینیڈا اور برطانیہ میں بہت پروگرام ہر وقت ہوتے ہیں۔ مگر دکھاوا پیسہ اور سیاست نے اردو کی وقت کم کردی ہے۔ اب وہ محبت اور خلوص نظر نہیں آتا۔ لوگ فرقوں میں بٹ گئے ہیں۔ اور پرانے دن ختم ہوگئے ہیں۔
٭٭٭٭