پاکستان معرض وجود میں آئے سات دہائیاں بیت چکی ہیں۔ ہم سے بعد میں آزادہونے والے ممالک آج ترقی یافتہ ملک بن چکے ہیں۔ہم آج بھی بجلی ،گیس، پانی ، آٹا ، چینی کو ترس رہے ہیں۔ گھروں میں ایک کمانے والے اور سب کھانے والے ہوا کرتے تھے۔ آج سبھی کمانے والے لیکن بجلی کے بل ادا نہیں کرپاتے۔ ملک میں بے چینی، بدامنی، بھوک، مہنگائی، خودکشیاں اور دہشت گردی ہے۔ بیرونی دہشت گردوں کے ساتھ اندرونی دہشت گرد مل کر مملکت اور ریاست کی بوٹیاں نوچ رہے ہیں۔ ملک کی باگ ڈور کرپٹ ،بدمعاش ،قاتل لٹیروں اور حرامی لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ جنہیں حلال نصیب نہیں اور حرام انکی فطرت میں ہے۔ شریف خاندان ہو یا زرداری خاندان۔سندھ کے وڈیرے ہوں یا بلوچ قوم پرست۔ پنجابی سیاستدان ہوں یا پختونخواہ کے خوانین۔ ان سب نے ملکر ملک کو اس نہج پر پہنچایا ہے۔ اس ملک پر حرامی بچوں کا راج ہے۔ جنکی کی رگ رگ میں حرام اور کرپشن رچی بسی ہے۔ انہیں بار بار ہم پر مسلط کرنے والے جرنیل برابر کے مجرم ہیں۔ جنہوں نے پاکستان کی بنیادوں کو ہلا دیا ہے۔ جنکی بیرون ملک محلات اور رہن سہن ھے۔ وہ پاکستان پر ہر چند سال بعد مسلط کہے جاتے ہیں ۔ جو لوٹو اور پھوٹو کے علمبردار ہیں۔ انہیں اسٹبلشمنٹ، بیوروکریسی اور ججز کی پشت پناہی حاصل ہے ہیں ۔ کیونکہ ہر ادارے میں کچھ حرامی بچے بیٹھے ہیں جن کا وطیرہ ملک دشمنی ہے۔ وطن سے غداری۔ پی ڈی ایم کی جو رہنما پاکستان چھوڑ کر لنڈن اور دوبئی چھپ بیٹھے ہئں انہیں الیکشن سے پہلے جیلوں میں ڈالا جائے تاکہ لوٹی دولت کا حساب لیا جاسکے۔ جنکو تین دفعہ اور چار دفعہ حکمرانی کا موقع ملا ھو اور ملک تباہی و بربادی کی تصویر ھو۔ایسے لوگوں کا کہنا کا اگر موقع ملا تو ملکی تقدیر بدل دینگے۔ ایسے بددیانت عناصر کو ووٹ دینے والے جاہل اور ملک کے دشمن ہیں۔ نگران وزیراعظم کاکڑ سے ٹھاکر بننے کی کوشش میں ہیں۔ Lower کورٹس کی ججز سپریم کورٹ کی نہیں مانتے۔ الیکشن کمیشن پورے نظام پر بھاری ہے۔محتسب چوراں کو چھوڑ رہے ہیں۔ میڈیا میں الیکشن کے التوا کی خبریں ہیں۔کیونکہ آرمی چیف کیطرف سے چھ ماہ احتساب کا عندیہ دیا جارہا ہے۔اگر اس بات میں سچائی ہے تو معاشی دہشت گردوں پر ہاتھ ڈالا جائے ۔ یہ لوگ ملک میں بھوک، بلوں اور مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہوکر خود کشیاں کر رہے ہیں لہٰذا ان تمام لوگوں کے مقدمات معاشی دہشت گردوں کے خلاف چلائے جائیں۔ آئی پی پیز کے خلاف چلائے جائیں جنہوں نے بجلی مہنگی کی ہے۔ اسحاق ڈر، فراڈ شریف ، زرداری، فضل الرحمن، ایم کیو ایم کے کی قیادت کے خلاف معاشی دہشت گردی کے مقدمات بنائے جائیں۔ معاشی دہشت گردی کے ذمہ دار فوجی ٹولہ اور حکمران طبقہ ہے۔ اگر آرمی چیف اور جرنیل مخلص ہیں تو سب لٹیروں کو بلاتخصیص قانون کٹہرے میں لایا جائے۔ لوٹ مار کا حساب لیا جائے۔انکی جائدادیں اور اثاثے قبضہ میں لئے جائیں۔ آئی پی پیپز کی جائدادوں، اثاثوں پر قبضہ کیا جائے۔ انہوں نے قوم کو مہنگائی کی جہنم میں دھکیل دیا ہے۔ انکی وجہ سے امن و رامہ کے مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔گلگت بلتستان کے حالات ،فساد اور مظاہرے کنٹرول سے باہرہورہے ہیں۔ حکمرانوں میں نہ کوئی سنجیدگی ہے اور نہ کوئی پلاننگ۔ پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ سے چار سو ارب روپے کیش پکڑے گئے ہیں ۔جس پر خورشید شاہ بھڑک اٹھے ہیں۔اگر تمام سیاسی چوروں اور بیوروکریٹس کا بے لاگ اور کراس دی بورڈ احتساب ہوتو ان سیاسی درندوں سے کئی کھرب روپے برآمد ھونگے۔ یہ اژدھے ملکی تباہی کے ذمہ دارہیں۔ جو بجلی کا یونٹ ہم اکسٹھ روپے میں خرید رہے ہیں بھارت میں بارہ روپے اور سری لنکا میں پچیس روپے کا ہے ۔ آرمی چیف نے اگر اکانومی کو درست سمت دینی ہے تو بجلی سستی کرنے کے لئے آئی پی پیز پر ہاتھ ڈالیں ۔ جنرل عاصم منیر جن بزنس مینوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں ۔ان میں اکثریت ان وائٹ کالر کریمینلز کی ہے۔ جو بجلی اور ایل این جی کے مالکان اور بڑے شیئر ہولڈرز ہیں ۔جو آرمی چیف کو یہی مشورے دے رہے ہیں ۔ یہی مس گائیڈ کررہے ہیں۔ ان پر گرفت کرنی چاہئے۔یہی وہ حرامی النسل ہیں۔ جو آئل کی سمگلنگ،چینی اور آٹے کی سمگلنگ میں ملوث ہیں۔یہ میڈیا ہائوس مالکان ہیں۔ یہی مہنگائی کرنے والے جن ہیں۔آرمی چیف کی نیت ٹھیک ھوگی ۔ لیکن ان مافیاز کو لٹکائے بغیر معاشی استحکام نہیں آئے گا۔ کرپشن کے ماسٹر مائینڈز پر ہاتھ ڈالے بغیر کرپشن ختم نہیں ہوسکتی ۔ ایف بی آر کے کرپٹ عناصر کو فارغ کئے بغیر ٹیکس کی ریکوری نہیں ہوسکتی۔ قبضہ مافیاز کے بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالے بغیر قیمتی زمینوں پر قبضے بند نہیں ھونگے۔ کرپٹ جرنیلوں، کرپٹ ججوں، کرپٹ بیوروکریٹس کے ہوتے ہوئے ملکی حالات نہیں سدھر سکتے۔ چینی، بجلی ،تیل، کو نشان عبرت بنائے بغیر معاشی بدحالی رہے گی۔پچیس بلین کی سعودی سرمایہ کاری کی بات ہورہی ہے۔ بھارت میں جی ایٹ سمٹ کے موقع پر کران پرنس کی کانفرنس میں شرکت کے موقع پر ہاکستان میں انکی آمد متوقع ہے۔ شایدہم اپنے زندگی میں دوسروں کی امداد پر زندہ رہیں گے،ملکی معیشت کی بحالی کے لئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔بنگلہ دیش میں 109 روپے، افغانستان میں 83 روپے ، انڈیا میں ڈالر 82 روپے کا ہے جب کہ پاکستان میں ڈالر 334 روپے کاہے۔
آرمی چیف بزنس مینوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ انہوں نے بزنس کمیونٹی کوٹیکس ادا کرنے کی اپیل کی ۔ لیکن آرمی چیف صاحب مجرموں، معاشی دہشت گردوں ر ڈاکوں سے چوری کا مال واپس کیوں نہیں لاتے۔ بیوروکریسی کی لوٹ مار کیوں نہیں پکڑتے۔ جن کی دو لاکھ تنخواہ ہے اسکے تین تین بچے بیرونی ممالک پڑھتے ہیں جنکی فیس کریمنلز ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ کے کہ ھمارے ملک میں معاشی دہشت گرد آزاد ہیں۔ ان پر ہاتھ ڈالنے والے وائٹ کالر کریمنلز کی پناہ گاہیں ہیں۔کوئی سیاسی رہنما قومی خزانے پر ڈاکہ نہیں ڈال سکتا۔
اور نہ ہی کوئی بیوروکریٹ مال بنا سکتا ہے۔ اگر عدلیہ انصاف پر مبنی فیصلے کرے۔
بزنس کمیونٹی سے انکے مسائل پر کوئی بات نہیں کرتا۔ انکے مسائل کو نہیں سمجھتا۔ بزنس پہلے کی کوئی نہیں، ڈالر نے بزنس کمیونٹی کو بیس سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔
ملک میں احتساب، انصاف ، قانون کی بالادستی کے لئے ہو ۔ کسی ایک جماعت کو دیوار سے لگانے کے لئے نہ ہو۔ الیکشن اگر منصفانہ ہوں ۔ امیدوار کی اہلیت اور انتحابی اخراجات پرآئینی تقاضوں کے مطابق عمل ہو تو مجرم ، کریمنلز ، چور اور الیکٹیبلز منتخب نہیں ہوسکتے ۔ دیانتدار اور صاف ستھرے لوگ اسمبلیوں میں آئینگے۔ معاشی آئین سٹائن اسحاق ڈالر ، لاہور ی نیلسن منڈیلا نواز شریف۔مرد اہم سندھی ڈاکو زرداری ۔ حسینہ 420 مریم صفدر۔ کراچی کے بھتہ خور ایم کیو ایم کہیں نظر نہیں آئینگے۔
میرا سوال ہے کہ کیا سارے جج اور جرنیل حرامخور اور بے شرم ہیں۔؟
کیا سارے جرنلسٹ اور بیوروکریٹ حرام پر پلتے ہیں۔ ؟
کیا سارے علما کے پیٹ میں حرام کا مال جاتا ہے ؟ کہ یہ لوگ ظلم، مہنگائی، بلوں
میں ھوشربا اضافے۔ اور خودکشیوں پرنہئں بولتے ہیں۔ خاموش کیوں ہیں۔؟
زیادہ تر آئی پی پیز پاکستانی پالیٹیشنز ہیں۔ جن کی ڈبل نیشنیلٹی ہے۔ وہ بیرونی سرمایہ کار کے طور پر آئی پی پیز ہیں، جنہیں زرداری نے پچاس ارب روپے دئیے تھے۔
چینی مافیا بھی پارلیمنٹ میں بیٹھی ہے، یہ بدمعاش پہلے چینی ایکسپورٹ کرتے ہیں ۔ پھر اسی چینی کو ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ عوام کا قیمتوں میں بھرکس نکالتے ہیں۔ اصل حکمران اسٹبلشمنٹ سارے ، ظلم، زیادتی اور لوٹ مار کو اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہے جن ظالموں نے عمران خان کا باتھ روم، پاخانہ مانیٹر کرتے ہیں۔ اربوں کھربوں کے ڈاکے پر کیسے خاموش رہتے ہیں۔سننے میں آیا ہے کہ جنرل عاصم منیر پر اندر سے پریشر ہے کہ چوروں اور ڈاکوں کا احتساب کیا جائے۔ اسٹبلشمنٹ کی نالائقیوں اور بدمعاشیوں کی وجہ سے آج گلگت اور کشمیر میں خودمختار کشمیر کے نعرے لگ رہے ہیں۔ فوجی ٹولہ ہی دراصل ان بیماریوں کی وجہ ہے۔ابا کا بیٹا وزیراعظم کہتا ہے کہ بل تو دینا پڑینگے۔ اس بیغرت سے کوئی پوچھے کہ بیس ہزار کمانے والا تیس ہزار بل کہاں سے دیا،لکھ دی لعنت آپ پر۔ورلڈ بینک کی رپورٹ کیمطابق افغانستان میں چیزیں سستی ہورہی ہیں۔ایکسپورٹ، اور ریمیٹنس نہ ہونے کے برابرہیں ۔ ایکسپورٹر مہنگی بجلی اور گیا لیکر عالمی مارکیٹ میں compete نہیں کرسکتا۔آئی پی پیز نے گزشتہ بارہ سال میںہزار ارب صول کیے ہیں ۔ ان کریمنلز پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا۔انکے خلاف عالمی جسٹس عدالت میں جانا چاہئے۔ تاکہ ان کریمنلز کو گردنوں سے پکڑا جاسکے۔ جماعت اسلامی نے آئی پی پیز کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ریاست کو بچانے کے لئے حرامی سیاست دانوں امریکہ اور یورپ کے ناجائز بچوں کو ملکی سیاست سے آوٹ کیا جائے۔
خدارا! پاکستان پر رحم کرو
ملکی ترقی کے لئے ان حرامخور اور غیروں کے ناجائز بچوں سے جان چھڑائیں۔ایسے لوگوں کو منتخب کیا جائے جو عوام کا درد محسوس کرتے ہوں۔امانت و دیانت کے اہل ہوں ۔ ایسی قیادت صرف اور صرف جماعت اسلامی کے پاس ہے ،جو نظریہ پاکستان کی پاسبان ہے اور ملک وقوم کی خدمت کا جذبہ رکھتی ہے۔ اسکا ماضی اور حال آپکے سامنے ہے۔ آئیندہ الیکشن میں جماعت اسلامی پر اعتماد کریں کبھی مایوس نہیں ھونگے۔
٭٭٭