1526عیسوی میں بابر نے کابل سے آکر پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا پانی پت میں تین جنگیں ہوئیں ہندوستان میں اپنی حکومت جمانے کے لئے۔ پانی پت دہلی سے صرف75میل کے فاصلے پر ہے اور اس کی اہمیت وہاں کے وسائل کی وجہ سے ہے۔ ریلوے کا بڑا جنکشن ہے جہاں سے کئی سمتوں میں ٹرینیں نکلتی ہیں پانی پت پنجاب کے چندی گڑھ کے بھی قریب ہے۔ بابر کو کیا سوجھی کہ کابل چھوڑ کر دہلی میں اپنا قبضہ جمائے صرف ایک وجہ تھی کہ ضرورت کے تحت دور اندیش سے کام لیا اور چونکہ طاقت ور تھے لڑاکو تھے تو اللہ پر بھروسہ تھا۔ ہندوستان اردگرد کے ممالک کے علاوہ برطانیہ کے لئے بھی سونے کی چڑیا تھا۔ محمود غزنوی نے تو سومناتھ پر17حملے کئے تھے چاہتا تو رک جاتا لیکن وہ سومناتھ میں داخل نہ ہوسکا اور اس کا آنا جانا ہوتا رہا بالآخر سترویں بار میں وہ کامیاب ہوگیا غزنی(افغانستان) کا رہنے والا تھا یہ998عیسوی کی بات ہے اور صرف27سال کی عمر میں اپنے باپ کی وفات کے بعد سلطان بن گیا تھا یہ سب لوگ افغانستان سے آئے تھے۔ محمود غزنوی اپنی حکومت وسیع تر کرنا چاہتا تھا اور سومناتھ میں سونے کی مورتیوں پر اس کی نظریں تھیں جو اس کی ضرورت تھی کہ وہ افغانستان میں خوشحالی لاسکے۔
ہم پھر بات کرتے ہیں پانی پت کی دوسری جنگ کی۔ جو1556میں اکبر اور سوری کے سپہ سالار ہیموکے درمیان ہوئی یہ جنگN-17تھی اس لئے کہ اس میں ہیمو کا سر تن سے جدا کردیا گیا تھا ویسے اس زمانہ کی جنگیںN-17ہوتی تھیں انگریزوں نے جب دہلی پر قبضہ کیا تو بہادر شاہ ظفر کے دو بیٹوں کے سر جسم سے جدا کرکے اسے پلیٹ میں سجا کر بہادر شاہ ظفر کو پیش کئے گئے۔ اندازہ کریں انگریزوں نے کس سفاکی اور درندگی کا مظاہرہ کیا تھا اور آج کے تناظر میں انگریزوں کو دیکھ کر ہمیں شبہ ہوتا ہے کہ یہ درندگی انہوں نے کی ہوگی شبہ ہے انگریزوں کی فوج میں شامل پہاڑی سپاہی بھی ہونگے جنہیں دشمنی ہوگی مسلمانوں سے جوااب شوسینا کے لوگ ہیں جو درندگی پھیلا رہے ہیں لیکن ہم باہر کیوں جائیں ثناء اللہ کم ہے کیا ہوسکتا ہے15ویں صدی میں اسکے آباء اجداد انگریز فوج میں شامل ہوں۔ تاریخ جو ہم پڑھتے ہیں وہ کچھ اس طرح کی ہوتی ہے کہ لکھنے والا حکومت کا ہی ہوتا ہے اب آج جو کچھ پاکستان ہو رہا ہے تو وہ ہی تاریخ میں رہے گا جو عاصم منیر کہہ رہا ہے اور اسکے پیچھے جو کرپٹ سیاستدان کہہ رہے ہیں۔ اب آتے ہیں پانی پت کی تیسری لڑائی پر جو احمد شاہ ابدالی(افغانی) اور مراٹھوں کے درمیان میں ہوئی دو ماہ تک آمنا سامنا مار دھاڑ جاری رہی اور یہاں بھی افغانی طاقت کا عروج رہا۔ کہ دال سبزی کھانے والے سے کہیں زیادہ گوشت خور طاقتور ہوتا ہے بس شبہ ہوتا ہے کہ پنجاب کے لوگ جو گوشت خور ہیں کونسا گوشت کھاتے ہیں کس نے کہا تھا گدھے کا گوشت عام ہے لیکنKPKمیں دھبے کھانے والوں نے کیا تیر مارا ہے اب تک اور اب پاکستان کے حالات پر کوئی بات کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ ہاں تو لکھ رہے تھے طاقت کا استعمال اسکے لئے بزرگ مہاورے دے گئے ہیں جس کی لاٹھی اس کی بھینس وہ ہو رہا ہے ہمارے فوجی جنرلز گائوں کے چودھری یا اونچائی پر بیٹھے شیر(بظاہر) کی مانند ہیں جہاں سے پانی نیچے گر رہا ہو جیسے پینے کے لئے بیچارہ خرگوش آجائے اور شیر للچائی نظروں سے دیکھ کر دھمکی دے۔” اے یہ پانی تم نہیں پی سکتے۔ یہ میرا ہے اور خوگوش بے چارگی سے کہے جہاں پناہ وہ تو نیچے گر کر ضائع ہو رہا ہے اور میں پیاسا ہوں۔ پھر شیر چیخ کر کہے” میں جو کہہ رہا ہوں تمہیں یقین نہیں آتا اور چھلانگ مار کر خرگوش کو ہڑپ کر لے ملک میں ایسا ہی ہے کہ خان کہتا ہے یہ ثبوت ہے میرے پاس کاغذ ہلا کر پھر سائفر آجاتا ہے اور عاصم منیر امریکی حکم بجا لاتے ہوئے ثناء اللہ کو اشارہ کرتا ہے اور عمران خان اندر سب ڈر کر گھروں میں بند اپنی مائوں سے چمٹ جاتے ہیں جب کہ انکی مائوں کو بھی گھروں سے بے دخل کر دیا جاتا ہے اور چودھری فضل الٰہی جیسا کمزور جسامت کا انسان اپنے ضمیر کی آواز پر عمران کا ساتھ دے کر ڈاکوئوں کو حیران کردیتا ہے عدلیہ اسے ضمانت دیتی ہے اور نامعلوم افراد گاڑی سے کھینچ کر اپنی بلٹ پروف میں بٹھا کر غائب ابھی تک نہیں معلوم وہ کہاں ہیں۔
ادھرDGISPRپریس کانفرنس کرکے صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے رخPTIاور عمران خان کی طرف کردیتے ہیں۔ سوال کرنے والی سہم کر خاموش ہوجاتی ہے کوئی مرد سوال نہیں کرتا کہ یہ دبلا پتلا حونق شکل جنرل کہیں احمد شاہ ابدالی والا حشر نہ کرے۔ اب ان گھاس بھوس کے جنرلوں کے لئے کیا لکھیں کہ ہماری تحریر بگڑ جاتی ہے۔
ہم نے جو مثالیں افغانیوں کی دیں اس لئے کہ بہت سے فیس بک اور سوشل میڈیا پر آنے والے برابر کہہ رہے ہیں۔ افغانستان ملک میں آکر حکومت سنبھال لیں انہیں اسلحہ درکار ہے اور اس وقت روس یا امریکہ مدد نہیں کرے گا روس اس لئے کہ انہیں یاد ہے کہ افغانیوں نے انہیں رلا دیا تھا اور امریکہ اس لئے کہ وہ پاکستان میں نئی تاریخ لکھ رہا ہے جو کچھ اس طرح ہوگی ہم نے افغانستان کو چھوڑ کر پاکستان پر قبضہ اس لئے اور ایسے کیا کہ دنیا کو معلوم نہ ہو سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے لیکن یہ ایسے ہی نہیں ہوا یقیناً ڈونلڈلو نے پنجاب کی تاریخ پڑھی ہوگی اور تاریخ میں لکھا جائے گا پاکستانی قوم بڑی فرمانبردار رہی ہے۔ حکم بجا لانے میں پیش پیش اگر ان سے کہو بیٹھ جائو تو وہ کھڑے رہتے ہیں۔
اور یہ بھی کیا خوب اور دلچسپ حال میں ہونے والے ایشیا کرکٹ کپ میں افغانستان کی ٹیم نے پاکستانی میں بسے افغان بھائیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سٹیڈیم آکر دعائوں اور تالیوں سے انہیں ہمت دیں۔ ہم بھی دعا کرتے ہیں کہ افغانستان جیتے۔ اور چرچے ہو رہے ہیں کہ کابل میں افغانستان کی حکومت کامیابی سے بڑھ رہی ہے۔ لوگوں کو بتاتے چلیں کہ انکی حکومت میں سب پڑھے لکھے مسلمان ہیں۔ ثناء اللہ، شہبازشریف، اسحاق ڈار، زرداری، بلال جیسے منافق نہیں ہیں جن کے اوپر حافظ سعید عاصم منیر بیٹھا قوم کو غلام بنائے ہوئے ہے۔
وقت بدل گیا ہے پانی پت انڈیا میں ہے اور یہ پاکستان ہے جس کے پڑوس میں افغانستان کی حکومت ہے ایسا ممکن ہے کہ وہ بابر اور محمود غزنوی کی طرح کی ضرورت کے تحت پاکستان آئیں اور سیدھے پنجاب میں جاکر سب کو داڑھیاں اور صافے بند ہوا دیں پھر جو مرنے سے ڈرتے ہیں وہ ہمارے جنرلز ہیں اور سیاست دان جنہیں سدھارنے کے لئے ان کی ضرورت ہے اور پانی پت کی چوتھی لڑائی کی بھی کہاں ہوگی یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
٭٭٭