عدالتیں اور کوٹھے !!!

0
532
مجیب ایس لودھی

ملک میں اقتدار پر قبضہ کیلئے ایک ماہ سے جاری ڈرامہ میں کردار نئے کہانی پرانی تھی بس تاریخ نے اپنے آپ کو دہرا یا ہے اس پر آخر میں کچھ لکھوں گا پہلے کچھ ٹیپو سلطان کے بارے میں کیونکہ عمران خان کے اقتدار سے علیحدگی کے بعد لوگ ٹیپو سلطان اور انکے غداروں میر جعفر اور میر صادق کو بہت یاد کررہے ہیں ایک بات یاد رکھنے والی ہے کہ جب بھی حکومت گرائی جاتی ہے تو اسکے پیچھے میر جعفراور میر صادق جیسے کردار لازمی شامل ہوتے ہیں عمران خان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا خیر یہ باتیں اب چلتی رہیں گی۔ میں آج ٹیپو سلطان کی زندگی کا کچھ پہلو بتاتا ہوں جس نے کہا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے اسے شیر میسور بھی کہتے ہیں ٹیپو سلطان کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا بنگلور ہندوستان میں 20 نومبر 1750 میں حیدر علی کے گھر پیدا ہوئے والد سلطان حیدر علی نے جنوبی ہند میں 50 سال تک انگریزوں کو بزورِ طاقت روکے رکھا اور کئی بار انگریزافواج کو شکست فاش بھی دی والد کے بعد ٹیپوسلطان نے انتہائی دوررس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیں صنعت و تجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو ازسرنو منظم کیا سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ برصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی اخراج ہے نظام اور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھا اور انگریزوں سے اتحاد کر لیا ٹیپو سلطان نے ترکی، ایران، افغانستان اور فرانس سے مدد حاصل کرنے کی کوششیں کیں مگر کامیاب نہ ہو سکا میسور کی آخری جنگ کے دوران جب سرنگاپٹم کی شکست یقینی ہوچکی تھی ٹیپو نے محاصرہ کرنے والے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور قلعے کو بند کروادیا لیکن غدار ساتھیوں نے دشمن کے لیے قلعے کا دروازہ کھول دیا اور قلعے کے میدان میں زبردست جنگ چھڑ گئی بارْود کے ذخیرے میں آگ لگ جانے کے باعث مزاحمت کمزور ہو گئی اس موقع پر فرانسیسی افسر نے ٹیپو کو بھاگ جانے اور اپنی جان بچانے کا مشورہ دیا مگر ٹیپو راضی نہ ہوا اور 4 مئی 1799ء کو میدان جنگ میں دشمنوں سے لڑتے ہوئے شہید ہو گیا۔ پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی کا جو کھیل کھیلا گیا وہ بھی پی ٹی آئی کے میر جعفروں اور میر صادقوں کی بدولت ہی ممکن ہوا اسی لیے تو عمران خان نے جاتے جاتے کہا کہ اقتدار کے چلے جانے کا دکھ نہیں بے وفائی کرنے والوں کا دکھ ہے اس دن جب میاں شہباز شریف بطور وزیر اعظم منتخب تو ہو گئے تھے مگر حلف نہیں اٹھایا تھا اور اپنی پہلی تقریر میں کسی کے خلاف انتقامی کاروائی نہ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا مگرپھر ہوا کیا اسی دن رات کو ملک بھر کے تمام ائر پورٹس پر پی ٹی آئی کے بندوں کے نام پہنچ گئے سابق مشیر شہزاد اکبر نے ایک میسج کیا کہ انتقامی کارروائیوں کا آغاز ہو چکا ہے اور قوم کو مبارک ہو کہ منی لانڈرنگ والا وزیراعظم اور اپنے فرض کی ادائیگی والے سٹاپ لسٹ پر ہے میں امپورٹڈ حکومت کے اس اقدام کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر رہا ہوں حیرت ہے عدم اعتماد کی رات نام ڈالا گیا جب نہ کوئی حکومت تھی نہ کابینہ عدم اعتماد کی کارروائی بھی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی اس رات نام سٹاپ لسٹ میں کس نے ڈالا؟ میں تو اوورسیز پاکستانی بھی نہیں ساری زندگی یہیں رہا ہوں عدالت ایف آئی اے کو بلا کر پوچھے نہ حکومت تھی نہ کابینہ تو کس کے کہنے پر نام ڈالا گیا؟ ڈی جی ایف آئی اے کو بتانا ہو گا اسے کس نے یہ آرڈر کیا تھا ایف آئی اے نے اپنے اس ڈائریکٹر کا نام بھی ڈال دیا جو منی لانڈرنگ کے کیسز لیڈ کر رہا تھا وہ سرکاری افسر ہے وہ تو اجازت کے بغیر یوں بھی ملک سے باہر نہیں جا سکتا رہی بات کپتان کی آخری گیند کی تو وہ واقعی آخری بال تک کھیلا اسی کھیل میں بہت سے چہرے کھل کر سامنے بھی آئے اور جاتے جاتے عمران خان کو یہ کہنا پڑا کہ کوئی رہ تو نہیں گیا جو میرے خلاف نہ ہواہو شائد انہی پردہ نشینوں کو سامنے لانے کے لیے قومی اسمبلی کا انتہائی اہم اجلاس جان بوجھ کے آخری وقت تک کھینچا گیا آخری بال، آخری چال، آخری گھنٹہ اور آخری پتہ سب پریشان تھے کہ کیا ہونے جا رہا ہے اعصاب کی جنگ تھی سارا دن گزر گیا بات آخری لمحوں تک پہنچ گئی ٹھیکیداروں کے اعصاب جواب دینے لگے انہیں ساری محنت ضائع ہوتی ہوئی نظر آئی جو اب تک پس پردہ چھپے بیٹھے تھے انہیں مجبوراً سامنے آکرایکسپوز ہونا پڑا اور پھرآخری گھنٹے میں سب ایکٹوہو گئے چھٹی کے دن آدھی رات کو عدالتیں کھل گئیں منصفان ریاست جوک در جوک پہنچنے لگے ساری اپوزیشن آدھی رات تک قومی اسمبلی میں بیٹھی رہی ۔ وزیراعظم ہاؤس میں ہیلی کاپٹرز پہنچنے،افراد کے آنے اور آرمی چیف کے ہٹائے جانے کی خبریں چلوائی گئی قیدیوں والی گاڑیاں پہنچا دی گئی لا انفورسمنٹ حرکت میں آئیں اور سب کنٹرول کیا جانے لگاشائد یہی وہ ٹائم تھا جس کیلئے کپتان نے اتنی لمبی اعصابی جنگ لڑی اتنی زیادہ محنت کی تھی کپتان نے میڈیا کو بلایا سوشل میڈیا پہ سب لائیو جا رہا تھا اندر کی خبریں باہر آ رہی تھی تب کپتان نے معنی خیز مسکراہٹ کیساتھ پوچھا کوئی رہ تو نہیں گیا جو میرے خلاف نہ ہواہو، مطلب کوئی رہ تو نہیں گیا جو واضح طور پر قوم کے سامنے ایکسپوز نہ ہواہو جس پر صحافیوں نے کہا جی نہیں تو پھر کپتان اٹھا ڈائری اٹھائی اور وکٹری کا نشان بناتاہوا اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا بظاہرہار کے جا رہا تھا مگر حقیقت میں یہی اس کی جیت تھی وہ سب پردہ نشینوں کے منہ سے نقاب نوچ کے جا رہا تھا وہ سب کو بے نقاب کر کے جا رہا تھا اس کا مقصد پورا ہوا 75 سالوں سے پردے کے پیچھے بیٹھے ہوئے اصل ہرکارے قوم کے سامنے ایکسپوزہو چکے تھے یہی اس کی جیت تھی یہی اس کا ماسٹر اسٹروک تھا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here