ہمارے معاشرے میں “اڑتا ہوا تیر”کی مثال دینا بڑا غیر معیوب سمجھا جاتا ہے، مگر جو حرکت پاکستانی نظام کے ساتھ ہوئی، چاہتے ہوئے بھی اس مثال سے پیچھا نہیں چھوڑا پا رہا۔عمران خان کی تجرباتی لانچنگ، بارہا ناکامیوں، زبردستی بلے بلے کروانے، سیاسی مخالفین کی کردار کشی میں بھرپور کردار ادا کرنے، دوہری شہریت کے حامل زادوں کو پاکستان کے انتہائی حساس اداروں اور معلومات تک رسائی دلانے سمیت کتنے ہی اڑتے ہوئے تیر تھے جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے بڑی خوشی اس چمن میں گرنے دیے۔جو فصل بوئی تھی وہ آج کاٹنی پڑ رہی ہے۔ کیا اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ سابقہ حکومتی ٹولے نے اپنے پورے دور حکومت میں کام کی بجائے بیانیے بنانے میں گزار دی، آج فوجی جرنیلوں کی باہمی چپقلش کو بھی ایک ایسے ہی بیانیے کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے کیسے بیانیہ کے روپ میں بیان کیا جارہا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔صرف ایک نوٹیفکیشن جاری کرنے کا موقع مل جاتا تو عمران خان کو نہ کوئی امریکی دھمکی کا خط موصول ہوتا اور نہ ہی غیر ملکی قوتوں کا آلہ کار بننے کا الزام اپوزیشن کے سر جاتا۔۔۔۔۔۔بلاشبہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دور تھا، جس کو قوم گزار چکی ہے۔اگر امریکہ یا کوئی اور ملک پاکستان میں اس وقت حکمران تبدیل کروانے کا خواہشمند ہے تو پھر سابقہ حکمران جماعت کو جواب دینا چاہیے کہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد تحریک کسی امریکی ایجنڈے کی تکمیل کا سفر ہے۔پنجاب میں اپنے وزیر اعلیٰ کو اپنے ہاتھوں قربان کردینا کوئی سی امریکی شازش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کڑی ہے، ڈٹ کر کھڑا رہنے والا کپتان اپنی ٹیم کی قربانیاں کیوں مانگتا رہا۔وزیراعظم ہائوس میں مبینہ بدسلوکی کی خبر جھوٹی ہے مگر اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان کے منہ پر تاریخ کے تھپڑ کے نشان کبھی مٹ نہیں سکیں گے۔کیونکہ یہ ایک ایسا وزیر اعظم تھا جو جمہوری رویوں کو روندے کے لیے ہر وقت بے تاب نظرآتا تھا اور اپنے کارکنوں کی اس قدر عمدہ تربیت کی کہ اب لوگوں کے حوصلے ساتھ چھوڑنے لگے ہیں جس کا عملی مظاہرہ اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں پیش آنے والے افسوس ناک واقعہ سے کیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو اگرچہ یہ وقت کی ضرورت تھا مگر عمران خان کو اس وقت گھر بھجوا کر حکومت میں آنے کا فیصلہ پی ڈی ایم کا بھی اڑتے ہوئے تیر سے پیار کرنے کے مترادف ہی ہے۔
٭٭٭