رمضان المبارک کی بابرکت و مقدس ساعتیں شروع ہو چکی ہیں۔ دنیا بھر کی طرح یہاں ریاست الی نائے بلکہ امریکہ بھر میں بھی فرزندان توحید اس مبارک مہینہ کے فیوض و برکات سمیٹ رہے ہیں۔ مساجد سحر سے افطار اور تراویح کی ادائیگی میں بھری ہوئی ہیں، دیگر مذہبی مقامات پر بھی فرائض و سنت کی ادائیگی بھرپور طریقے اور خشوع و خضوع سے کی جا رہی ہے۔ اللہ کریم عبادتوں ، ریاضتوں کو قبول فرمائے آمین۔ رمضان المبارک تزکیہ نفس ، برداشت، صبر و تحمل سے عبارت ہے اور ہماری دعا ہے کہ اس ماہ مبارک کے طفیل اللہ کریم تمام مومنین کو انفرادی و بحثیت قوم توفیق عطا فرمائے۔ دعا تو ہم ساری امت مسلمہ کے لئے ہی کررہے ہیں لیکن وطن عزیز دین مبین کے نام پر 27ویں شب مبارکہ میں وجود میںآنے والی مملکت میں جو حالات برپا ہیں، ارباب بست و کشاد کے جو رویئے اور اعمال ہیں وہ اس ماہ مبارک کے تقاضوں کے قطعی برعکس ہیں۔ تجارت، کاروبار، سیاست ، ریاست، حکومت سے لے کر ہر شعبے تک وہ سب کیا جا رہا ہے جو تزکیہ نفس، تحمل، برداشت و مواخات سے عاری ہے۔ مہنگائی نے روزہ داروں کی زندگی اجیرن کی ہے تو صاحبان اقتدار و اختیار نے ملک و عوام کے مفادات کے خلاف اپنی رٹ مقدم رکھنے کے سارے ہتھکنڈے اپنائے ہوئے ہیں۔وطن عزیز میں گزشتہ دو برسوں سے جاری سیاسی عدم استحکام 8فروری کے انتخابات کے بعد مزید بڑھ رہا ہے۔ کہنے کو تو وفاق سے صوبوں تک اسمبلیاں و حکومتیں وجود میں آچکی ہیں،نئے صدر مملکت کا انتخاب بھی ہو چکا ہے اور فیصلہ سازوں کے مطابق انتخابی جمہوری عمل تکمیل پا چکا ہے لیکن جمہور(عوام) کے مینڈیٹ کے مطابق حق داروں کو ان کا حق نہ دینے اور اقلیتی جماعتوں کو حق حکمرانی دینے کی بنا پر احتجاج، جھگڑوں اور عدالتی موشگافیوں کا بحرانی سلسلہ جاری و ساری ہے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف انتخابات سے قبل اور انتخابی عمل کے دوران و بعد جو زیادتیاں اور ناانصافیاں کی گئیں ان کی تفصیل ہر پاکستانی کو ازبر ہے، ایوانوں میں محفوظ نشستوں پر ڈاکہ زنی بھی سب جانتے ہیں۔ ایسے میں صدر، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ کے انتخاب نامکمل اسمبلیوں کی بناء پر نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ دیگر مخالف جماعتیں بشمول جے یو آئی قبول کرنے سے گریزاں ہیں، عوام بھی تسلیم کرنے پر تیار نہیں ۔ پی ٹی آئی نہ صرف ایوانوں میں بلکہ عوام کے ہمراہ تمام شہروں میں زبردست احتجاج کررہی ہے، لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور سمیت ہر شہر میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور جواباً انتظامیہ اور سکیورٹی ادارے ظلم و جبر، گرفتاریوں میں مصروف ہیں۔
ہمارا اندازہ ہے کہ حالات جس رخ پر جا رہے ہیں مزید عدم استحکام کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس کے منفی اثرات رمضان المبارک میں بالخصوص عوام کی زندگیوں پر تو پڑیں گے ہی وطن عزیز کی معاشی صورتحال بھی مزید خراب ہونے کا سبب بھی ہو سکتی ہے۔ اگرچہ دوسری بار صدر بننے والے آصف زرداری نے تمام سیاسی فریقین بشمول عمران کو ساتھ لے کر چلنے اور افہام و تفہیم کا بار بار اظہار کرنے کا اعادہ کیا لیکن کور کمانڈرز کانفرنس میں 9مئی کے حوالے سے ذمہ داران، سہولتکاروں اور ملوث لوگوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کا اعلامیہ حالات بالخصوص عمران اور پی ٹی آئی کے حوالے سے تشویش کا باعث بنتا ہے۔ تاہم عمران خان کی اس اعلامیہ انڈورسمنٹ اور 9مئی سے لاتعلق ہونے کا اظہار ایک مثبت اقدام اور سیاسی عمل ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران کے خلاف گزشتہ برسوں ظلم و جبر، قید و مقدمات اور سیاس سے باہر رکھنے کی زیادتیوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اس سے قبل جب عمران وزیراعظم تھا اور پنجاب، کے پی ، جیب و کشمیر میں پی ٹی آئی برسراقتدار تھی کپتان کے بعض فیصلے اور اقدامات ممکنہ غیر دانشمند ساتھیوں و مشیروں کی ایڈوائس پر سیاسی و عقلی حوالے سے مناسب نہیں رہے جن کی وجہ سے نہ صرف خود کپتان اور اہلیہ نیز پی ٹی آئی کے ڈائی ہارٹ ساتھیوں اور وفاداروں کو گرفتاریوں ، مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ عوام کی مقبول ترین سیاسی جماعت کو گزند پہنچا ہے۔
کپتان اگر تحریک عدم اعتماد کے بعد بھی بحیثیت پارلیمان میں مضبوط قائد حزب اختلاف اور مضبوط اپوزیشن میں موجود رہتا تو بھان متی کے کنبے کو 16ماہ کیا6 ماہ بھی گزارنا مشکل ہوتا، اسی طرح پنجاب و پختونخوا کی اسمبلیوں و حکومتوں کی تحلیل بھی دانشمندانہ فیصلہ نہ ثابت ہو سکا اور حالات مزید دگرگوں ہوتے چلے گئے۔ اسٹیبلشمنٹ کے لئے کوئی لیڈر یا سیاسی جماعت مستقلاً فیورٹ نہیں ہوتے بلکہ معروضی حالات و وفاداری اوراہداف کے مطابق پسندیدگی کا معیار متعین ہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں سلیکٹیڈ کا انتخاب ہوتا ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ سے پاکستان تک شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں کاروبار حکومت و مملکت میں اسٹیبشلمنٹ کا عمل دخل نہ ہو۔انتخابی عمل کی تکمیل ہو چکی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اقلیتی حکومت زیادہ دیر چل نہیں پائے گی، کسی بھی وقت کسی بھی ممکنہ اشارے پر پیپلز پارٹی یا دوسرے تیسرے اتحادی نے ہاتھ ہٹا لیا تو فیصلہ ساوں کا آپشن تبدیل ہو سکتا ہے۔ عمران خان کا 9مئی کے حوالے سے کور کمانڈرز اجلاس اعلامیہ کا اینڈورسمنٹ اور ذمہ داروں سے لا تعلقی، عدالتوں سے ضمانتوں کا تسلسل(یہ محض عدالتوں کا اختیار نہیں، اس میں فیصلہ سازوں کی رضا مندی یقیناً شامل ہو گی) اور موجودہ صدر کا پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں سے اشتراک اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا اعادہ بے معنی نہیں۔ لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں حالات زیر غور ہیں اور برف پگھل رہی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ کپتان کی جانب سے مثبت سیاسی اظہاریہ اور دانشمندانہ فیصلہ سازی ہو۔ ویسے بھی ابھی فارم 45 اور 47 کا قفیہ حل طلب ہے اور اس کے نتائج عمران اور پی ٹی آئی (سنی اتحاد) کے حق میں بھی آسکتے ہیں۔ ضرورت سیاسی سوچ اور مثبت رویئے کی ہے۔