٭سید مرتضیٰ علم الھدی اپنے زمانے میں کاظمین میں درس دیتے تھے اور لوگ دور دور سے درس میں آتے تھے۔شاگردوں سے ایک شاگردبغداد سے آتا تھا تو ہمیشہ دیر سے آتا تھاکیونکہ کشتی دیر سے چلتی تھی اور عصر کو واپس جاتی تھی۔استاد نے ایک دن اس سے پوچھا تو اس نے حالات بتائے اور کہا کہ میں درس سے بہتر فائدہ نہیں اٹھا سکتا ۔سید نے اس پر رحم کیا اور اسے ایک رقعہ لکھ کر دیا کہ اسے دریا کی طرف کر دیناوہ راستہ دے دے گا۔شاگرد نے وہ رقعہ لیا اور اپنے پاس رکھ لیا اور کافی عرصہ تک اسی طرح کرتا رہا اور وقت پر درس میں آ جاتا تھا۔ایک دن اس نے خیال کیا کہ دیکھوں تو سہی کہ اس میں لکھا کیا ہے تو اس نے کھول کر دیکھا تو اس میں بِسمِ اللہِ الرحمنِ الرحِیمِ لکھا تھا۔تو اس کے دل میں خیال آیا بس یہ ہے اور دریا راستہ دے دیتا ہے۔اس کے بعد اس نے اس رقعہ کو دریا کی طرف کیا مگر دریا نے راستہ نہ دیا۔آخر کار کشتی کا انتظار کیا اور کشتی پر سوار ہو کر دیر سے آیاتو سید نے اس سے دیرسے آنے کی وجہ پوچھی تو اس نے بیان کیا تو سید نے کہا کہ جب تک تیرے دل میں اس کی عظمت باقی تھی راستہ ملتا رہا مگر جب تم نے اسے حقیر جانا تو راستہ ملنا ختم ہو گیا۔بادشاہ شام نے حضرت بر جیس کو زہر دلوایا مگر اس کا اثر نہ ہواتو اس نے ساحروں کو بلوایا اور پوچھا کہ اس پر زہر کا اثر کیوں نہ ہوا۔انہوں نے کہا کہ معلوم نہیں۔حضرت جرجیس کو بلایا گیاتو انہوں نے کہا کہ میں نے بِسمِ اللہ ِ پڑھی تھی اس لئے زہر کا مجھ پر اثر نہیں ہواتو ساحر ان پر ایمان لے آئے۔ایک عورت نے اپنے شوہر کو زہر دی مگر اس کا اثر نہیں ہوا ،اس لئے کہ وہ بِسمِ اللہ ِ پڑھا کرتاتھا ۔اس عورت نے پوچھا کہ تم پر زہر نے اثر کیوں نہ کیا تو اس نے کہا کہ میں بِسمِ اللہ ِ پڑھتا ہوں۔پھر شوہر نے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں یہ کیا تو اس نے کہا کہ تم بوڑھے ہو اور میں شوہر چاہتی تھی اس لئے کیا،تو اس شوہر نے اسے آزاد کر دیا۔بشر حافی نے بِسمِ اللہ ِ کے کاغذ کو زمین سے اٹھا کر معطر کیا اور بلند مقام پر رکھاتو ایک عالم نے خواب میں دیکھا کہ اسے نجات مل گئی۔ صبح کو وہ عالم اس کے گھر گیا تو وہ اسے وہاںنہ ملا پھر اس کے شراب خانے میں گیا وہاں اسے بلایا اور بتایا کہ اللہ نے تجھے معاف کر دیا ہے کیونکہ تم نے اس کے نام کو اٹھاکر بلند مقام پر رکھا اور تعظیم کی ہے۔جو شخص بِسمِ اللہ ِ پڑھ کر آنکھوں میں سرمہ لگائے گا اسے آنکھو ں کی بیماری سے شفا ملے گی اور کوئی بیماری نہ لگے گی۔ حضرت عیسی علیہ السلام بِسمِ اللہ ِ پڑھ کر پانی سے گزر جاتے تھے اور دریا ان کو راستہ دے دیتا تھا ۔جو شخص بِسمِ اللہ ِ پڑھے گا قیامت کے دن یہ اس کے لیے سایہ ہو گا ۔رسول خدا نے فرمایا وہ دعا ہرگز رد نہیں ہوتی جس کا آغاز بِسمِ اللہ ِ سے کیا جائے جب میری امت قیامت کے دن آئے گی اور بِسمِ اللہ ِ پڑھے گی تو اس کی نیکیاں میزان میں بھاری ہوں گی دوسری امتیں کہیں گی کس چیز نے امتِ محمد کے میزان کو جھکا دیا ہے انبیا فرمائیں گے ان کے کلام کی ابتدا اللہ کے اسما حسنی میں تین نام ہیں اگر ان کی نیکیاں میزان کے ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور مخلوق کے گناہ دوسرے پلڑے میں رکھ دیئے جائیں تو ان کی نیکیوں کا پلڑا جھکا ہو گا ۔ امام جعفر صادق نے فرمایا قبل از اسلام لوگ اپنے خط کی ابتدا بِاسمِک اللہم کے جملہ سے کیا کرتے تھے لیکن جب اِنہمِن سلیمان واِنہ بِسمِ اللہِ الرحمنِ الرحِیمِ کی آیت نازل ہوئی تو خط کو بِسمِ اللہ ِ کے سرنامہ سے لکھنا شروع کیا گیا۔اگر خط کی ابتدا بسم اللہ سے ہو تو وہ حفاظت سے پہنچ جاتا ہے۔ابوذر غفاری کہتے ہیں رسول خدا نے فرمایا قیامت کے دن جب مومن کو نامہ اعمال دیا جائے گا اور وہ بِسمِ اللہ ِ پڑھ کر کھولے گا تو تمام اعمال حسنات میں تبدیل ہو جائیں گے۔ایک دفعہ رسول خدا اپنے اصحاب کے ساتھ ایک قبرستان کے پاس سے گذرے تو آپ نے فرمایا یہاںسے جلدی کرو۔واپسی پر صحابہ کرام قبرستان سے پھر دوڑ کر گزرنا چاہتے تھے تو رسول خدانے فرمایا آرام سے چلو۔اصحاب نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ اس قبرستان میں ایک فاسق و فاجر انسان پر عذاب عظیم ہو رہا تھا اور اب اس پر رحمت نازل ہو رہی ہے کیونکہ آج اس کے یتیم بیٹے کو معلم نے بِسمِ اللہ ِ کا درس دیا ہے ۔تو اللہنے فورا ملائکہ کو حکم دیا کہ اس شخص پر رحمت نازل کی جائے کیونکہ اس کا بیٹادنیا میں مجھے رحمان و رحیم کے نام سے یاد کر رہا ہے۔ایک دفعہ حضرت عیسی ایک قبر کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ عذاب کے فرشتے اسے عذاب دے رہے ہیں۔جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو کر واپس آئے اور اس قبر کے پاس سے گزرے تو وہاں رحمت کے فرشتے دیکھے،جن کے پاس نور کے طشت تھے۔حضرت عیسی علیہ السلام کو بڑا تعجب ہوا ۔نماز پڑھی اور اللہ سے دعا مانگی۔اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وحی کی کہ اے عیسی علیہ السلام میرا بندہ گنہگار تھا۔اس لئے عذاب میں گرفتار تھا۔وہ ایک حاملہ بیوی چھوڑ گیا تھا جس سے ایک لڑکا پیدا ہوا وہ اس کی پرورش کرتی رہی۔یہاں تک کہ وہ بڑا ہو گیا۔اس کی ماں نے اسے ایک مدرسے میں داخل کرایا۔معلم نے اس سے کہا۔ بِسمِ اللہِ الرحمنِ الرحِیمِ تو اس بچے نے بسم اللہ پڑھی اس لئے اب مجھے اس پر رحم آیا کہ میں اسے زمین میںعذاب دوں۔جبکہ اس کا بیٹا زمین پر میرا نام لیتا ہے۔ایک دفعہ قیصر روم کے سر میں درد ہوا۔اطبا اس کے علاج سے عاجز آ گئے۔قیصر روم نے امیرالممنین حضرت علی کی خدمت میں خط لکھا کہ میرے سر میں ہر وقت درد رہتا ہے اس لئے میرے لئے کوئی دوائی بھیج دیں۔امیرالممنین حضرت علی نے اسے ایک ٹوپی بھیجی اور فرمایا کہ اسے اپنے سر پر پہن لیا کروتو سر کا درد جاتا رہے گا۔۔چنانچہ جب وہ ٹوپی سر پر پہن لیتا تو درد ختم ہو جاتالیکن جب اسے اتار دیتا تو سر کا درد شروع ہو جاتا۔اسے تعجب ہوا اس کی وجہ معلوم کرنے کیلئے اس نے ٹوپی ادھیڑنے کا حکم دیا ۔جب ٹوپی کو ادھیڑا گیا تو اس ٹوپی سے ایک کاغذ نکلا جس پر بِسمِ اللہِ الرحمنِ الرحِیمِ لکھی ہوئی تھی۔تو اسے معلوم ہوا کہ شفا بسم اللہ میں ہے۔جو شخص بال اور ناخن بِسمِ اللہِ الرحمنِ الرحِیمِ پڑھ کر کاٹے گا وہ ہاتھ اور سر کی تمام بیماریوں سے محفوظ رہے گا۔ہر چیز کی بنیاد ہوتی ہے قرآن کی بنیاد بِسمِ اللہِ الرحمنِ الرحِیم ِہے۔ہر چیز کا دروازہ ہوتا ہے قرآن کا دروازہ بِسمِ اللہِ الرحمنِ الرحِیمِ ہے اللہ نے سب سے پہلے قلم کو خلق کیا اور اسے بِسمِ اللہِ الرحمنِ الرحِیمِِ کے لکھنے کا حکم دیا تو وہ خوف سے شکستہ ہو گئی،یہاں تک کہ یہ تحریر سات سو سال میں مکمل ہوئی،پھراللہ نے اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر کہا کہ جو ایک دفعہ بِسمِ اللہِ الرحمنِ الرحِیم ِپڑھے گا میں اسے سات سو سال کی عبادت کے برابر ثواب عطا کروں گا۔ایک دفعہ موسیٰ علیہ السلام کے پیٹ میں درد ہوا تو انہوں نے اللہ سے دعا مانگی،تو اللہ نے فرمایا کہ فلاں بوٹی لے کر اس پر بِسمِ اللہِ الرحمنِ الرحِیمِ پڑھ لیا کرو تو موسیٰ علیہ السلام نے ایسا ہی کیا تو درد ختم ہو گیا۔پھر جب دوبارہ انہیں درد ہوا تو وہی بوٹی لے کر کھائی تو درد بڑھ گیاتو دعا مانگی اب تو درد بڑھ گیا ہے تو اللہ نے فرمایا کہ پہلے تم نے بوٹی پر میرا نام لیا تھا اب نہیں لیا اس لئے درد بڑھ گیا ہے بِسمِ اللہِ الرحمنِ الرحِیمِ پڑھ کر کھاو شفا ہو گی۔
٭٭٭