گذشتہ ساٹھ سالوں میں پاکستان کے ایوانِ اقتدار پر قابض حکمرانوں نے اس ملک کے بائیس کروڑ عوام کو قرض کی ایک ایسی دلدل میں پھنسایا ہے کہ شاید اگلی ایک صدی بھی اس قرض کو چکاتے ہوئے گزر جائے، مگر قرض ادا نہ ہو سکے۔ یہ حکمران جن کی ذاتی جائیدادوں میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا اور جن کی مالی سلطنت کی وسعت دنیا کے کئی براعظموں تک پھیل گئی، مگر انہوں نے اس مملکتِ خداداد پاکستان کو ایسا جکڑا ہے کہ آنے والا کوئی بھی حکمران خواہ کتنا ہی مخلص اور معاشی معاملات میں ماہر ہی کیوں نہ ہو، اس دلدل سے اس وقت تک نہیں نکال سکتا، جب تک عالمی سطح پر للکارتے ہوئے یہ نہ کہا جائے کہ ہم ایسا کوئی قرض ادا نہیں کریں گے جس کو حکمرانوں نے چند لوگوں کے فائدے اور کرپشن کے وسیع دھندے کو جاری رکھنے کیلئے حاصل کیا۔ ان سطور کو پڑھتے ہوئے آپ کو یقینا یہ بات مذاق لگتی ہو گی، لیکن آج کی دنیا میں ایسے ممالک موجود ہیں جنہوں نے یہ جرات دکھائی اور معاشی مفادات میں غرق عالمی برادری کو ان ممالک کی بات ماننا پڑی۔ یہ ممالک ایٹمی قوت بھی نہیں تھے اور نہ ہی ان کا جغرافیائی مقام ایسا ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کی مجبوری بنتے۔ یہ ایک ایسے خطے سے تعلق رکھتے ہیں جو باقی دنیا سے دور اور عالمی خبرنامے سے ہمیشہ پرے رہا، یعنی جنوبی امریکہ، جسے عرفِ عام میں لاطینی امریکہ بھی کہتے ہیں۔ شمالی امریکہ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ جیسی عالمی طاقت نے اس جنوبی برِاعظم کے تینتیس ممالک کو سرد جنگ کے دوران اپنی کالونی بنا کر رکھا ہوا تھا۔ ان ممالک میں افواج کے ذریعے ڈکٹیٹر شپ قائم کرنے کیلئے امریکہ میں باقاعدہ ایک سکول آف امریکاز کھولا گیا تھا، جہاں ان ممالک کی افواج کے اعلی افسروں کو عام فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ ریاستی تشدد، اغوا، لاپتہ افراد سے سلوک وغیرہ جیسے جرائم کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ محکوم و مظلوم یہ خطہ امریکہ کے مسلسل مظالم کے باوجود پچاس سال تک دنیا کے میڈیا کی توجہ حاصل نہ کر سکا۔ ان کے ایسے حکمران قتل ہوتے رہے جو امریکہ کو انکار کرتے تھے، لوگوں کو لاپتہ کیا جاتا رہا، لاکھوں تشدد کر کے مار دیئے جاتے تھے مگر انسانی حقوق کی انجمنیں بھی چپ رہیں اور عالمی میڈیا بھی خاموش۔ اس لئے کہ اس دور میں کیمونسٹوں کو مارنے کا فیشن عام تھا، جیسے آج کل مسلمانوں کو قتل کرنے کی رسم جاری ہے۔ آج مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ کر قتل کیا جاتا ہے، تو ان دنوں انہیں کیمونسٹ گوریلا کہہ کر مارا جاتا تھا۔ ان تمام ممالک پر امریکہ اور اس کے حواریوں نے اپنی مرضی کے حکمران مسلط کر رکھے تھے، جنہوں نے اپنے ملکوں کو قرض کی دلدل میں ویسے ہی دھکیلا جیسے بھٹو، بینظیر، زرداری اور نواز شریف نے پاکستان کو دھکیلا ہے۔ مگر ایک دن ان تینتیس مظلوم ممالک میں سے تین ممالک ایکویڈور، ارجنٹائن اور پیراگوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے عالمی قرضے ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ ان تینوں نے ان قرضوں کو ناجائز قرضے قرار دیا اور ناجائز ہونے کی تعریف انہوں نے برسلز میں قائم قرضوں کے خلاف ایک تنظیم کمیٹی برائے قائم ناجائز عالمی قرضہ جات، سے حاصل کی۔ اس کمیٹی کے سربراہ ایرک تسانت نے ناجائز قرضوں کی تعریف اس طرح کی ہے۔ یعنی وہ قرضہ جو چند افراد کو فائدہ پہنچانے کیلئے حاصل کیا جائے وہ ناجائز ہے۔ ان غیور ممالک میں سب سے کامیاب مثال ایکویڈور کی ہے۔ اس ملک کی کامیابی دراصل ایک جاندار اور غیرت مند قیادت کا کمال تھا۔ ایکویڈور میں ایک شخصیت رافیل کوریا (Rafeel Correa) نے ایک انقلابی تحریک کا آغاز کیا جس کا نام تھا “Citizen Revolution Movement” (شہری انقلابی موومنٹ)۔ رافیل کو ریا چونکہ ایک معیشت دان تھا، اس لئے اس نے ملک کی باقی سیاسی قوتوں کو بھی قائل کر لیا کہ اس ملک کی نجات صرف اور صرف عالمی قرضے ادا کرنے سے انکار میں پوشیدہ ہے۔ یہ شخص 2 اپریل 2006 کو ایکویڈور کا صدر منتخب ہوا۔ اس نے سب سے پہلے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے دفاتر کو بند کرایا اور کہا کہ آپ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ آپ ہماری اقتصادی منصوبہ بندی پر نظر رکھیں۔ اس کے بعد اس نے 1976 سے لے کر 2006 کے تمام قرضوں کا آڈٹ کرنے کا حکم دیا۔ اس نے ایک کمیشن قائم کیا جس میں 18 ماہرین شامل تھے جنہیں دنیا بھر سے لیا گیا تھا۔ اس میں ایرک تسانت کی کمیٹی کے اراکین بھی شامل تھے۔ لاکھوں فائلوں کا انبار تھا جو ان کے سامنے تھا اور ہزاروں معاشی معاہدے تھے جن کی چھان بین کرنا تھا۔ چودہ مہینے مسلسل محنت کے بعد کمیٹی نے ایک رپورٹ حکومت کو جمع کروائی جس کے مطابق ایکواڈور پر واجب 80 فیصد قرضہ ناجائز (illegitimate) تھا۔ اس نے ستمبر 2008 کو یہ رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی اور ایسے 80 فیصد ناجائز قرضوں کی ادائیگی سے انکار کر دیا۔ یہ تمام قرضے امریکی بینکوں میں بانڈز کی صورت میں امریکہ میں موجود تھے۔ ایکویڈور حکومت کے ساتھ فورا پریشان قرضہ دینے والے اداروں نے گفت و شنید کا آغاز کر دیا اور آخر کار اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ 70 فیصد قرضہ ناجائز ہے اور آج کے بعد قرضہ دینے والے اس کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر وہ قرضہ وصول کرنے پر اڑے رہتے تو ایکویڈور سے ان تمام فرموں کو دیس نکالا مل جاتا جو ان بینکوں اور فنانشل ادارہ کے پیسوں سے وہاں کام کر رہی تھیں۔ قرضوں سے نجات کے بعد 2008 میں ایکویڈور کا جو بجٹ آیا وہ ایسا تھا جیسے کسی بڑی معاشی قوت کا بجٹ ہوتا ہے جو صحت، تعلیم، صاف پانی، سیوریج اور دیگر سماجی خدمات پر سرمایہ خرچ کر رہی ہو۔ پاکستان ایک ایسی قیادت کو کئی دہائیوں سے ترس رہا ہے۔ عمران خان سے یہ توقع تھی کیونکہ اس کا ان معاشی قوتوں سے کوئی مفاد وابستہ نہیں تھا، لیکن وہ بھی ایسا شاہین ثابت ہوا جو کرگسوں میں زندگی گزار رہا ہو۔ پاکستان کا کل قرضہ جون 2021 کو 39,859 ارب روپے تھا۔ اس قرضے میں سے 13,559 ارب روپے تو بیرونی قرضے ہیں جو صرف 34 فیصد بنتے ہیں مگر 26,300 ارب روپے کے قرضے تو مقامی بینکوں سے لئے گئے ہیں جو 68 فیصد بنتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ظالم حکمرانوں نے عوام کے پیسے جو انہوں نے مختلف بینکوں میں جمع کروا کر رکھے تھے ان میں سے بھی 26,300 ارب روپے خرچ کر ڈالے ہیں۔ پاکستان کو تباہ و برباد کرنے والے ان حکمرانوں کے کردار کو دیکھ کر جان پرکنز (John Perkins) یاد آتا ہے جس نے اپنی مشہور کتاب “Confessions of Economic Hit Man” میں تحریر کیا ہے کہ جب ہم کسی ملک کو معاشی طور پر اپنا غلام بنانے لگتے ہیں تو وہاں کے حکمرانوں کو قائل کرتے ہیں کہ وہ “infrastructural” یعنی مواصلات و تعمیرات وغیرہ پر قرضے حاصل کریں۔ ایسے قرضے سے عام آدمی کی صحت، تعلیم اور معیارِ زندگی میں کسی قسم کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ جب یہ قرضے 50 فیصد جی ڈی پی سے زیادہ ہو جاتے ہیں تو پھر ہم اس ملک کے معدنی و زرعی وسائل پر قبضہ کر لیتے اور پورا ملک ہمارا غلام ہو جاتا ہے اور ہمارے ملک کے قرضے تو 90 فیصد جی ڈی پی ہیں۔ لاہور سے اسلام آباد موٹر وے پر چوبیس سال سے جب بھی سفر کرتا آیا ہوں تو جان پر کنز یاد آتا ہے۔ چمکتی ہوئی روڈ پر روزانہ چند ہزار گاڑیاں گزرتی ہیں، جبکہ اس کے دونوں جانب کروڑوں افراد غربت و افلاس کے مارے، صحت نہ تعلیم، صاف پانی نہ سیوریج ایک ہزار سال پرانی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ کسی ملک کو اس سے زیادہ کیا برباد کیا جا سکتا ہے۔ نوٹ: ایک مریضہ برین ٹیومر کے سلسلے میں آپریشن کی منتظر ہے، مگر استطاعت نہیں رکھتی خاوند کا نمبر 0300-4521032 ہے۔ کوئی صاحبِ دل آپریشن میں مدد کر سکتا ہے۔
٭٭٭