مملکت خداداد پاکستان غالباً دنیا کی وہ واحد ریاست ہے جہاں بیک وقت حب الوطنی، وحدت اور یکجہتی کے مظاہرکے ساتھ آئین ، جمہوریت و قانون کو مفادات اور سیاسی منافرت عصبیت اور ذاتیات کے خول میں لپیٹ دیا جانا ایک معمول ہے خواہ اس کے نتائج اور مضمرات ملک اور عوام کے مفادات اور خوشحالی و سا لمیت کے لئے ناموافق ہی کیوں نہ ہوں۔ مفادات کا یہ گھنائونا کھیل کسی ایک شعبہ، ادارہ ، جماعت تک ہی محدود نہیں بلکہ اس حمام میں سب ہی ننگے نظر آتے ہیں۔ قیادت، حکومت، سیاست سے کھیل تک مفاداتی ہوس و خود غرضی کا یہ سلسلہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ وطن کے لئے بڑی سے بڑی خوشی یا کامیابی اغراض کی دھند میں لپٹ جاتی ہے اور اصل روح مضروب ہو جاتی ہے۔ہمارے اس اظہار کا سبب گزشتہ ہفتے کے وہ قومی ، سیاسی و حکومتی اور ادارہ جاتی واقعات و معاملات ہیں ہیں جو قومی، معاشرتی و جمہوری حوالوں سے کسی طور بھی قومی، شعوری و منصفانہ اصولوں کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔
ایک فلمی مکھڑے کا مصرعہ ہے ” جدھر دیکھوں تیری تصویر نظر آ تی ہے” گزشتہ ہفتے پاکستانی قوم کے فرزند ارشد ندیم کی پیرس اولمپکس میں تاریخ ساز ریکارڈ کامیابی پر ساری قوم مسرت و قومی وحدت و یکجہتی کی مکمل تصویر بنی ہوئی تھی لیکن اس مسرت انگیز موقع پر اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں پر کھڑی وفاق و پنجاب حکومت نے قومی ہیرو کی کامیابی کو اپنی جھولی میں ڈالنے کے لئے اور اپنی خود ساختہ مقبولیت کے ابلاغ لئے جو مفاداتی تصویری و ویژل کھیل کھیلا اور ارشد ندیم کی لاہور آمد پر حکومتی نمائندوں نے جس طرح اسے اپنے اظہار خیال کیلئے کانا پھوسی کرکے حکومتی تعریف کے لئے دبائو ڈالا وہ کسی بھی زندہ معاشرے کے لئے ایک ناسور ہی ہو سکتا ہے۔ ایک غریب گھر کا محنتی بیٹا اپنی محنتوں و کاوشوں سے وطن عزیز کے لئے ناقابل یقین و تاریخی اعزاز حاصل کرکے جب وطن پہنچا تو بجائے اس قومی ہیرو کے پروجیکشن کو شایان شان طریقے سے کرنے کے وزیراعظم و وزیراعلیٰ پنجاب کے ابلاغ و پروجیکشن کو ذریعہ بنایا گیا۔ وزیراعظم کے Cheapویڈیو(چمچوں کے توسط سے) وزیراعلیٰ کی ڈبل ڈیکر بس اور ارشد ندیم کے اپنے گائوں جانے والے راستوں پر تصاویر آویزاں کرنے کا عمل ان کے لئے عزت کا سبب بننے کے برعکس رسوائی اور عوام میں نفرت کا ذریعہ ثابت ہوا۔
حیرت کی بات ہے کہ گزشتہ نصف صدی سے سیاسی ایرینا میں رہنے والیی نواز لیگ کو اس حقیقت کا علم نہیں کہ سیاسی مقبولیت محض تصاویر لگانے اور کھوکھلے نعروں اور وعدوں سے نہیں ملتی بلکہ عوام کے دلوں میں گھر بنانے سے ہوتی ہے یا پھر ان کی میڈیا ٹیم نااہل ہے جس کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے ن لیگی قائدین و رہنما عوام سے ذلت و تنفرہی سمیٹ رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ فارم 47 اور اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی اور عدالتی محاذ آرائی کے نتیجے میں بھی ن لیگ نہ ہی حکومتی معاملات میں کامیابی حاصل کرسکی ہے نہ عوامی حمایت کی حامل ہے۔ دوسری جانب تمام تر سختیوں ، الزامات و مقدمات اور سزائوں کے باوجود عمران خان کی مقبولیت اور سیاسی اہمیت روز بروز بڑھ رہی ہے کہ عوام سوشل میڈیا، حمایتی سیاسی اشرافیہ بھی اس سچائی کو ہی تسلیم نہیں کرتے بلکہ مخالفین بھی اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کا تمام تر محور عمران ہے۔ سیاسی محرکات ہوں، پرنٹ میڈیا ہوں الیکٹرانک یا سوشل میڈیا، پھر عدالتیں ہوں، مقتدرہ ہو کہ حکومتی ،ایوان اور آئینی ادارے ان کے اقدامات و بیانات کا آغاز و اختتام عمران و پی ٹی آئی پر ہی ہوتا ہے۔ مخالفین کی تمام ہرزہ سرائی، مخالفانہ و منتقمانہ کارروائیوں اور فیصلوں کے باوجود عمران عوام کے قلوب میں بسا ہوا ہے اور ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔
ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں وطن عزیز کی سیاسی، معاشی ، معاشرتی ناگفتہ بہ حالت کے پیش نظر استدعا کی تھی کہ حالات کی بہتری اور استحکام کا واحد راستہ مفاہمت ہے ،مقتدرہ کے سخت عزائم، عدلیہ کی اندرونی چپقلش و تقسیم اور اداروں کے بغض کے تناظر میں محسوس ہو رہا ہے کہ حالت میں بہتری کی کوئی امید نہیں اور عمران و مقتدرہ کے درمیان آنے والا وقت کوئی اچھی پیش بینی نہیں دکھا رہا ہے۔ سپریم کورٹ سے قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر ن لیگ کے امیدواروں کا فیصلہ حق میں دینا جبکہ ان نشستوں پر پی ٹی آئی کے اراکین حلف اٹھا چکے تھے اور فیض حمید کے جنرل کورٹ مارشل کا اعلان اس امر کی نشاندہی ہے کہ حالات مزید خراب ہونے ہیں اور مقصد صرف عمران کو عوامی سیاست سے دور رکھنا اور انتقام لینا ہے۔ ہماری چیف جسٹس اور سپہ سالار سے درخواست ہے کہ پاکستان و عوام کی خاطر بس کریں اور حالات میں بہتری لائیں۔ دنیا اور اقتدار چند روز کے ہیں۔