شیطانی غذائیں !!!

0
55

محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے آجکل انسانی آنکھ اور کان جتنا بار سہہ رہے ہیں ہر جگہ روشن اسکریں فون و دیگر برقی آلات کمپوٹر و ٹی وی جس میں اسکرین پر نہ صرف تصویر بلکہ آوازیں بھی شامل ہوتی ہیں یہ فلم ڈرامے موسیقی کی شکل میں انسانی دماغ کی میموری کو بھر رہی ہیں، دماغ ایک یادداشت میموری ہے جس سے سائنسدان کھیل رہے ہیں ،شیطان اس میں پنجے گاڑ رہا ہے کیسے سوچئیے گا میرے کالمز پڑھ کر اُلٹی سیدھی باتوں ے عادی آپ ہوچکے ہیں، اس وجہ سے یہ معاملہ آپکی صوابدید پر چھوڑا میرا دعویٰ ہے کہ غیر شرعی آوازیں تیز میوزک اور فحش سین بھی نجس غذا ہے جو سماعت کو اور دماغ کو آلودہ کردیتی ہے ! اس زمین پر گزرے انتہائی قابل اور عظیم ترین فلاسفر آرتھر شوپنہار نے دنیا کی تکلیفوں کی فلسفیانہ وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ اس دنیا میں دو جذبات بہت اہم ہیں؛ ” درد” اور “خوشی” اگر کوئی ان جذبات کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے تو اسے، ان دو جانوروں کو دیکھنا چاہئے جن میں سے ایک دوسرے کو مار کر کھاتا ہے یعنی ایک شیر جب ہرن کو اپنی خوراک بناتا ہے، اس سے شیر کی بھوک ختم ہوتی، اس کا پیٹ بھرتا ہے، شیر کو خوشی محسوس ہوتی ہے جبکہ شیر کی خوشی کے جذبات کے بالکل برعکس جذبات ہرن کے ہوتے ہیں؛ وہ خوف، درد اور تکلیف محسوس کرتی ہوئی اپنی جان دے دیتی ہے ۔
انسان اپنے اچھے دنوں میں اپنی برُی تقدیر سے غافل رہتے ہیں جب کہ برُی تقدیر ان کے اندر ہی سٹور ہوتی ہے؛ جیسا کہ بیماری، غربت اور دیگر نقصانات اگر انسانوں کی تمام ضرورتیں پوری کردی جائیں ، ان سے مشکلات اور مصیبتیں دور ہوجائیں اور جس طرف بھی انسان رخ کریں، بس کامیاب ہوتے چلے جائیں ؛ تو اس کا لازمی طور پر یہ نتیجہ برآمد ہوگا کہ انسان اتنی آسائشوں اور خوشیوں کی وجہ سے تکبر سے پھولتے چلے جائیں گے، اور حماقتیں کریں گے، اور بے لگام ہوتے جائیں گے، اور وہ پاگل ہوجائیں گے تو کیا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہمیشہ ہر انسان کے لیے ایک خاص مقدار میں دیکھ بھال یا درد یا مشکل اس کی بہتری کے لئے ضروری ہوتی ہیں ؟ سمندر میں چلنے والے بحری جہاز پر اگر ضروری وزن نہ لدا ہو تو وہ غیر مستحکم ہوکر ڈگمگانے لگتا ہے اور کبھی بھی ایک سیدھ میں اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتا ۔ فلم کا نام (In Time) ہے۔اس کی کہانی عجیب ہے اور واقعات کم ہیں لیکن اس میں ایک “پیغام” بہت ہی زبردست، خوفناک اور حقیقت پر مبنی ہے جو دہشت میں ڈال دیتا ہے۔ انسان کی حقیقی عمر بائیں بازو پر درج ہوتی ہے(فلم کے تمام کرداروں اور تمام شرکا کے لیے) ہدایتکار اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ آپ کو دکھائے کہ کس طرح آپ کی عمر کی سیکنڈز، منٹس اور گھنٹے ختم ہو رہے ہیں۔ اور خوفناک بات یہ ہے کہ وہ اپنی عمر کو مالیاتی لین دین میں استعمال کرتے ہیں پیسوں کے بجائے۔ مطلب یہ کہ جب وہ اپنی روزمرہ کی ضروریات حاصل کرتے ہیں تو وہ اپنے بازو پر موجود بقیہ عمر کے وقت کے ذریعے ادائیگی کرتے ہیں۔ مثلا، اگر کسی کو کچھ خریدنا ہو تو اسے 30 منٹ یا ایک گھنٹہ یا ایک دن اپنی عمر سے دینا ہوتا ہے تاکہ وہ وہ چیز حاصل کر سکے۔ یا اگر وہ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے بازو کی گھڑی سے کچھ وقت دینا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی منزل تک پہنچ سکے کیونکہ وہاں پیسوں کا کوئی لین دین نہیں ہوتا، صرف عمر کا لین دین ہوتا ہے۔ مصنف نے حقیقت کی مشابہت میں ایک چیز اور شامل کی ہے جو حقیقی زندگی سے بہت ملتی ہے: یہ کہ اس عمر کی گھڑی میں طبقاتی تقسیم بھی ہوتی ہے(عمر کے غریب اور عمر کے امیر) یعنی کچھ لوگوں کے پاس 100 سال سے زیادہ کا وقت ہوتا ہے اور کچھ لوگ دن کے حساب سے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ جب ان کا وقت ختم ہو جاتا ہے، تو وہ مر جاتے ہیں۔ ایک منظر میں دکھایا گیا ہے کہ بلکہ اپنی ماں کا انتظار کر رہا ہوتا ہے تاکہ اسے اپنے بازو سے کچھ وقت دے سکے۔ اس کی ماں کی عمر میں صرف ایک گھنٹہ اور آدھا بچا ہوتا ہے اور اس کی عمر کی بیٹری ختم ہونے والی ہوتی ہے جس کے بعد وہ خود بخود مر جائے گی۔ جب ماں بس میں سوار ہوتی ہے تو ڈرائیور کہتا ہے، “میڈم، کرایہ آپ کی عمر کے دو گھنٹوں کے برابر ہے اور آپ کے پاس صرف ایک گھنٹہ اور آدھا ہے۔اس نے لوگوں کی طرف حیرت اور التجا کی نظر ڈالی، لیکن کسی نے پرواہ نہ کی اور نہ ہی کسی نے اسے کچھ منٹ دیئے۔ ماں بس سے اتر کر دوڑتی ہے تاکہ اپنے بیٹے سے مل سکے جس نے اپنی عمر سے دس سال دینے کا ارادہ کیا ہوتا ہے تاکہ وہ زندہ رہ سکے۔ دور سے دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی طرف دوڑتے ہیں۔ منٹس گزر رہے ہوتے ہیں، سیکنڈز گزر رہے ہوتے ہیں۔ جب وہ ملتے ہیں اور ماں اپنے بیٹے کو گلے لگاتی ہے تو وہ فوری مر جاتی ہے کیونکہ اس کی عمر کا آخری سیکنڈ ختم ہو جاتا ہے۔یہ فلم کا سب سے تکلیف دہ منظر ہے۔ بس میں ماں کی نظر اور لوگوں کا بے پرواہی سے اسے نظر انداز کرنا بہت دکھ بھرا ہے۔ کسی بھی شخص کے لیے ممکن تھا کہ وہ اسے کچھ منٹ دے دیتا جس سے وہ اپنے بیٹے کے حساب سے دس سال مزید جی سکتی لیکن حقیقت میں کوئی آپ کو اپنی عمر نہیں دے سکتا۔ فلم نے ایک عظیم پیغام دیا ہے، چاہے آپ نے اپنی زندگی میں کتنی بھی نیکیاں یا بدیاں کی ہوں، جب آپ گرتے ہیں یا کسی مشکل کا سامنا کرتے ہیں، تو آپ کو کوئی بھی نہیں ملے گا جو آپ کو اپنی عمر کے کچھ لمحے دے کر بچا سکے تاکہ آپ دوبارہ کھڑے ہو سکیں۔ کوئی بھی آپ کے لیے اپنی عمر کی قربانی نہیں دے گا تاکہ آپ اپنی مشکل سے نکل سکیں۔ ایک دن آپ گریں گے اور آپ کی بیٹری ختم ہو جائے گی اور آپ کا وقت ختم ہونے کے قریب ہو جائے گا۔ اس وقت صرف آپ کی محنت، کوشش اور خواب ہی آپ کو بچا سکتے ہیں۔ دو لوگ ہی ایسے ہوں گے جو آپ کے لیے اپنی عمر کی بیٹری خالی کرنے کے لیے تیار ہوں گے”آپ کی اولاد اور آپ کے والدین” صرف وہی لوگ ہیں جو آپ کو اپنی عمر کے لمحے دینے کے لیے تیار ہوں گے کیونکہ وہ آپ کو اپنی زندگی کے ہر لمحے کے قابل سمجھتے ہیں۔ یہ فطرتی محبت ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔ کبھی بھی اپنی زندگی کے لمحے کو بیکار، حسرت، غم، انتقام یا پچھتاوے میں ضائع نہ کریں اگر کوئی شخص جس کے بازو پر عمر کی گھڑی ہوتی اور وہ اپنی عمر کے سیکنڈز اور دنوں کو گرتے ہوئے دیکھتا تو وہ اپنی زندگی کے فیصلوں پر غور کرتا۔وقت ایک اہم عامل ہے۔ہم اسے آسانی سے کھو دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اجازت دیں میرے کالم میں بہت سے روحانی اشارے موجود ہوتے ہیں ،میں اس سے زیادہ کھل کر بات نہیں بیان کرسکتا جو قسمت کا دھنی ہوا وہ بھید پاجائیگا دعا گو ہوں اللہ آپکو آسانیاں عطا فرمائے، آمین!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here