”یوٹرن یا نو یوٹرن”

0
163
پیر مکرم الحق

عمران خان اور یوٹرن لازم وملزم ہے اور شروع سے یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک دن وہ ایک بات کرتے ہیں اور دوسرے دن وہ دوسری راگنی الاپتے ہیں لیکن میرے خیال میں وہ جان بوجھ کر ایسے نہیں کرتے ہیں۔اگر انہیں غور سے دیکھا جائے تو وہ ہمیشہ ٹینشن میں رہتے ہیں یا تو وہ ایکINTENSEآدمی ہیں جنہیں ہر وقت اپنی ذات اور اپنی فتح کی بہت زیادہ فکر رہتی ہے کہ کہیں ایسی بات سامنے نہ آئے جس میں انکی ہزیمت ہو جائے یا بے عزتی کا کوئی پہلو نہ ہو دوسرا وہ اپنی مار سے بہت خوفزدہ ہیں کہ کہیں ہمیں ہار نہ جائوں ویسے تو ہر کوئی جو کھیلتا ہے ۔وہ جیتنے کے لئے ہی کھیلتا ہے لیکن ایک سپورٹس میں ہے ،سپرٹ یا گنجائش ہوتی ہے کہ وہ اگر تمام کوششوں کے باوجود ہار جائے تو اسے بھی ایک شاندار طریقے سے قبول کرکے ہٹ جائے اور واپس اسٹیڈیم میں جاتے ہوئے گردن اُٹھا کر جانے میں کوئی بے عزتی نہیں محسوس کرے۔لیکن عمران صاحب کیلئے ہارنا اب قابل برداشت نہیں رہا ہے، ایک تو وہ لاڈلے رہے ہیں اور وہ گھر میں بھی اکلوتے بیٹے اور بھائی رہے اسکے علاوہ نازک بنے،وہ سپیر سٹار بننے کے باوجود بھی ایک شرمیلے نوجوان کی صورت بین الاقوامی اسٹیج پر نموددار ہوئے۔اس بات کی مغربی دنیا کی لڑکیوں اور خواتین میں کشش زیادہ ہوئی کیونکہ وہ اس طرح کے مرد جو کامیاب بھی ہوں اور خوبصورت بھی ہوں ،اس کا شرمیلا ہونا اگر ناممکن نہ تو مشکل ضرور رہے پھر جب ایک وقت میں کوئی مرد کئی خواتین کے ساتھ تعلق رکھے تو اسکی شخصیت میں یوٹرن کا شامل ہونا لازمی ہوجاتا ہے کیونکہ ایسی صورتحال میں اپنے کئے گئے وعدوں سے مکرنا ضروری بن جاتا ہے ایسا انسان پھر اپنی یادداشت کی زیادہ حفاظت بھی نہیں کرتا اور”یاد ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھے حافظ میرا”سہارہ لیتا ہے۔پھر وہ آہستہ بھول جانے کو وہ اپنی عادت بنا لیتا ہے۔اس لئے عوام یا طاقتور حلقوں سے کئے گئے وعدے بھولنا انکے لئے کوئی انوکھی بات نہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ انکی شخصیت کے کئی تاریک پہلو ہیں جنہیں خفیہ رکھنے کی کوشش اور راز افشا ہونے کا خوف برُی طرح انہیں اندر سے کھوکھلا کرتا جارہا ہے اگر آپ غور کریں تو یہ انسان آپ کو اس طرح خوفزدہ لگتا ہے جیسے کوئی بچہ میلے میں کھو گیا ہو وہ نہایت تنہا ہیں اپنی ذات میں اور کسی پر بھی اعتماد مکمل طور پر نہیں کرتے ہیں۔زندگی کی ساتھی سے لیکر سیاسی ساتھیوں کو ہر وقت خان صاحب کے شک کے موٹے محدب شیشے کے نیچے رہنا پڑتا ہے اور شک ایسی بیماری ہے جس میں مریض اندر ہی اندر میں گھلتا رہتا ہے۔باہر سے چاک وچوبند رہنے والے عمران خان اندر سے شک کے موذی مرض میں مبتلا ہیں اور دن بدن اس مریض کی حالت بگڑتی جارہی ہے۔وہ کرکٹ کی دنیا میں دو چیزوں بائولنگ کے انداز کے معترف رہے ہیں ایک گگلی اور دوسرا بائونسر کیونکہ ان دونوں طریقہ بائولنگ میں حیرانی کا غیر شامل ہے۔وہی انداز انہوں نے اپنی سیاست میں اپنایا ہوا ہے ،مخالف کو حیران کرو دشمن کو کبھی نہیں علم ہونا چاہئے کہ میرا اگلا قدم کونسا ہے بظاہر تو اچھی حکمت عملی ہے لیکن یہ کبھی کبھی اختیار کرنے والے کیلئے بھی خطرناک ہوجاتی ہے، اسلئے خان کو پتہ ہونا چاہئے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ یہ حکمت عملی جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے ،اللہ سب کی خیر کرے، سب کے خیر کی دعا کے ساتھ کالم کا اختتام کرتا ہوں۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here