تم چلو اُدھر کو ہوا ہو جدھرکی!!!

0
203
شبیر گُل

کائنات کا زرہ زرہ ، فرشتے ،چاند ،سورج اور ستارے سب اللہ کے حکم کے تابع ہیں۔ اپنے اپنے دائرہ اختیار میں من و عن حکم بجا لار رہے ہیں ، ان میں کسی کی مجال نہیں کہ حکم عدولی کرے۔ لیکن جن وانس کو اللہ نے اختیار دیا ہے کہ وہ حکم عدولی کرے یا حکم بجا لائے ۔آج عرب معاشرہ مغربی تہذیب اور بے حیائی کیطرف گامزن ہے۔ عرب شہزادے کئی دہائیوں سے عیاشی اور داد عیش کے لئے امریکہ اور مغربی ممالک میں گزارتے تھے لیکن آج ان شہزادوں نے مغربی تہذیب ،فحاشی وعریانی اور بے حیائی کو اپنی سرزمین ہی پر متعارف کروا دیاہے۔عرب معاشرہ میں اسلامی تہذیب و ثقافت تیزی سے روبہ زوال ہے۔ اسلامی تاریخ کے تمام نشانات اکھاڑے جارہے ہیں۔ علما یہ منظر نامہ خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔ کسی بھی طرف سے اخلاق باختگی کے نئے کلچر پر بات نہیں ہو رہی۔ تبلیغی جماعت پرسعودیہ میں داخلہ کی پابندی لگا دی گئی ہے اور انڈین اداکاروں پر مشتمل ایک بڑا ڈانس کنسرٹ کیا گیا ہے۔ جس سے پوری دنیا کے مسلمانوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ سعودی ولی عہد نے اسلامی شعائر کی توہین میں کوئی کسر اٹھا نہیں چھوڑی۔ کسی بھی طبقہ کے علما ہوں انکو اپنے واعظ میں اسکی مذمت کرنی چاہئے۔ علما کے وفود سعودی ایمبیسڈرز کو مسلمانوں کے زخمی دل اور جذبات پہنچائیں ۔ علما کرام دین کے وارث ہیں انکو آگے بڑھ کر ہر فورم پر سعودی حکمرانوں کے اس عمل کی مذمت کرنی چاہئے۔ وزیراعظم عمران خان ریاست مدینہ کے علمبردار ہیں ، انہیں چاہئے کہ پاکستانی قوم کے جذبات ان تک پہنچائیں۔ محمد بن سلمان کی اس ان حرکتوں پر خصوصا اہل حدیث علما جو سعودی حکمرانوں کے قریب ہیں۔ اس پر خاموش کیوں ہیں۔ آیا انہیں بے حیائی نظر نہیں آرہی یا سعودی ریال نے انکے منہ بند کردئیے ہیں۔ بے حیائی کو سرعام فروغ دیا جارہا ہے۔ مکہ اور مدینہ کو ٹورسٹ سٹی بنایا جارہا ہے۔ یہودی ریبائی مکہ میں مقامی بدووں کے ساتھ ناچ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہاہے۔ یہی وہ بدو اور مشرکین تھے جن پر اللہ رب العزت نے ہدایت کے لئے انبیا اتارے ۔ آج وہی عرب شراب، جوا ، کلب، پب اور ننگے ناچ کو عرب سرزمین پر لے آئے ہیں۔ دنیا کے بڑے جوا خانے ہوں یا ہارس رائڈنگ کلب ۔ انکے کے مالک اور پارٹنرشپ ہیں۔ہندو مندر کھولے جا رہی ہیں،برصغیر، افریقہ اورعربوں کے علاوہ پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان عملی اعتبار سے ان جاہل عربوں سے بدرجہا بہتر مسلمان ہیں۔ عربوں کی اکثریت کھانے پینے میں حلال و حرام کے تصور سے عاری نظر آتے ہیں۔ انکے نزدیک غیر ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھ کر کھا لینا جائز ہے۔ غیر عرب مسلمان ان چیزوں میں بہت احتیاط برتتے ہیں۔ تقویٰ کے لحاظ سے غیر عرب ان سے بہتر مسلمان ہیں۔ آج ایشیا ،برصغیر پاک وہند، افریقہ ،یورپ اور امریکہ میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے لیکن عرب ممالک میں اسلامی تشخص کو مجروح کر دیا گیا ہے۔ محمد بن سلمان نے چند ہفتے پہلے پوری دنیا سے اداکاروں اور میوزک سے وابستہ طائفے بلائے جس میں یورپ اور امریکہ کے پورن ویڈیوز بنانے والے اداکار ، ڈانسرز اور اسلام کے خلاف فلمیں بنانے والے ہدایتکار شامل تھے۔ کنسرٹ منعقد کئے گئے ، جام لٹائے گئے۔ پاک سر زمین کو نجس اور پلید لوگوں سے آلودہ کیا گیا۔ مکہ اور مدینہ کے کئی مقامات پر شراب کی بار کھولی گئی ہیں۔ جوئے خانے کھولے گئے ہیں جس شہر کو اللہ رب العزت نے امن کا شہر قرار دیا ہے۔ وہاں ایسے شیطانی پروگراموں کی کھلی اجازت اس سرزمین کی توہین ہے۔ عقل حیران ہے کہ عرب قوم نے اس بے حیائی اور فحاشی کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ سعودیہ عریبہ نے 52 ملکوں کے لئے ایک سال کا ملٹی پل بزنس ویزہ 125 ڈالرز میں آن لائن سہولت فراھم کی ہے۔ اس میں مسلم نان مسلم کی کوئی قید نہیں ہے۔ اپنے گھر بیٹھے آن لائن ویزہ ، مکہ، مدینہ ہر جگہ گھوم سکتے ہیں۔ عنقریب آپ سفید چمڑی والا گورا، ہندو ، اور یہودی کو چڈی، نیکر اور بیہودہ لباس میں وہاں ہر جگہ دیکھیں گے۔ میری ناقص عقل کے مطابق مسلمانوں پر عنقریب ویزہ کی پابندی لگ سکتی ہے۔ یا یوں کہیے مسلمان کو ویزہ کے لئے سکیورٹی حصار اور بہت زیادہ گارنٹی دینا پڑے گی۔ کیونکہ جب ایشا کے مسلمان گوروں اور یہودیوں کو مکہ ٹاور اور حرم پاک کے قرب و جوار میں ننگے گھومتے دیکھیں گے تو کوئی نہ کوئی مسلم نوجوان غیرت ایمانی کے جذبہ میں گوروں اور یہودیوں کی پٹائی کردے گا اور یہی سے ھم ایشیائی لوگوں پر عمرہ کے ویزہ کی پابندی سخت کردی جائے گی۔ اٹھارہ سال سے اوپر کی بچی کو کسی محرم کی ضرورت نہیں۔ البتہ بہن محرم بن کر کسی کو بھی لے جاسکتی ہے۔ خدا جانے انکو کس نے یہ قانون بنا کے دیا ہے۔ رقص و سرور، شباب کباب ، پب (شراب خانے) کسینو (جوئے خانوں) کی بھر مار کے بعد آئیندہ دنوں میں سعودیہ عریبہ میں جرائم بڑھ سکتے ھیں۔ ترکی،دوبئی ،بحرین،قطر ان ممالک میں بھی بے حیائی کاعروج ہے۔ ترکی میں طیب اردگان مذہبی خیالات کا لیڈر ہے۔ لیکن ترقی عملی طور پر یورپ نظر آتا ہے۔ ترکی چونکہ یورپ کے سنگم پر واقع ہے۔ اسکی اسلامی تاریخ اور ڈرامے سلطنت عثمانیہ کی نشا ثانیہ کی منظر نامہ پیش کرتے ھیں۔ جسے پوری اسلامی دنیا کے ممالک میں پذیرائی ملتی ہے۔ لیکن ترکی بھی ھماری طرح ریاست مدینہ کے خواب دکھانے تک ھی محدود ہے۔ جس بے حیائی کے نظام نے سعودی عرب کے معاشرے کے اسلامی تشخص کا حلیہ بگاڑا ہے۔ اسی نظام کو قرض دینے والے مالیاتی ادارے پاکستان سے ڈیمانڈ کرتے ھیں۔ اسی لئے ایف ایٹی ایف نے ھمیں گرے لسٹ میں رکھا ہے ۔ نواز شریف ،زرداری،مشرف نے اپنے اپنے ادوار میں انکی تمام شرائط من و عن مانی ہیں ۔اب یہی شرائط عمران خان مان رھے ھیں۔جو کہتے تھے قرض نہیں لونگا۔ یعنی ملک کا نظام تعلیم مغربی طرز پر، میڈیا پر بے حیائی کی آزادی ،مدارس کے نظام تعلیم میں تبدیلی وغیرہ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ قرض ان سے لیں اور اسلامی نظریاتی مملکت کی بات کریں۔ عمران خان ریاست مدینہ پرلیکچر میں کہتے ہیں کہ قائداعظم کا خواب کلمہ کا احیا تھا۔مگر وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے قائداعظم کوئی اسلامی مملکت کا قیام نہیں چاہتے تھے ۔ یہی وہ مہرے ہیں جو ہر دور میں ایسی منسٹریز پر براجمان نظر آتے ہیں۔مشرف دور ہویا پی پی کادور یا اب کی پی ٹی آئی کی حکومت ان تمام ادوار میں فواد چوہدری اسی وزارت پر یہی گفتگو کرتے نظر آئے۔ یہی وہ لوگ ھیں جو ان مالیاتی اداروں کی پے رول پر ھیں۔ ہر کوئی کشکول توڑے کا دعوی کرتا ہے۔ لیکن اپنے اقتدار کو دوام کے لئے غیر اسلامی،غیر تہذیبی شرائط کو مانتا ہے۔ یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ آج تک ہم یہی تعین نہیں کر پائے کہ ہمارا نظام تعلیم کیا ہونا چاہئے۔ ہماری ثقافت ،تہذیب و تمدن کیا ہوناچاہئے ۔ مسجد میں سب پہلی صف میں بیٹھے بڑے چوہدری،مالدار بزنس مین کے مال کی چمک کیوجہ سے آج کے علما حقیقی دین بتانے سے قاصر ہیں۔ پیروں کو دیکھ لیجے جن کی شادیوں پر کروڑوں ،اربوں روپے کا اسراف ہوتا ہے۔ بڑے بڑے علما ان شادیوں میں شرکت کرتے ہیں اور خاموش ہیں۔ علما بڑی لگثری گاڑیوں ، گن مینوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ تو یہ کیسے دین حق ہم تک پہنچائینگے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مذہبی لیڈر حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر اپنے منصب اور کردار کو داغدار کررہے ہیں۔ تو عام آدمی بھی حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر اسی ڈگر پر چل نکلتا ہے۔ علما کبھی قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات بتائیں ۔اصحاب رسول کا طرز زندگی بتائیں ۔ آجکل بیشترعلما نے اپنے نام سے مساجد کا کاروبار کرلیا ہے، سب سے بڑے دین کے ٹھیکیدار یہی پیشہ ور مولوی نظر آئیں گے۔ علما کے اختلافات نے پاکستانی معاشرے کو بھی مسلکی تقسم میں بانٹ رکھا ہے۔ علما سے انکے مسلک سے ہٹ کر قرآن وسنت سے متعلقہ سوال کریں تو کہا جاتا ہے کہ دین سے پھر گیا ہے۔ یہی منفی سوچ نوجوان نسل کو دین کی حقیقی روح سے دور لے جا ر رہی ہے۔امریکہ اور یورپ میں مساجد اور اسلامک سینٹرز بنانے میں مسلم کمیونٹی کے عام افراد کا انتہائی اہم کردار ہے۔ جسے سطحی سوچ کے علما نے اپنے منفی مقاصد اور روٹی کے حصول کے لئے استعمال کیا ہے۔مسلک اور پیری مریدی کا گھنانا کھیل یہاں تک سرایت کر گیاہے۔دور خاضر میں مسلمان حکمران رسول کریم کی شان میں گستاخی پر خاموش رہتے ہیں۔ ایسا حال ہی ہمارے علما کرام کاہے۔مسلکی نفرتوں کے انبار لگا دیئے گئے ہیں۔ رسول اللہ اور صحابہ کی گستاخی پر خاموش رھنگے۔ گزشتہ تیس سال میں امریکہ کے ننانوے فیصد علما میں عشق رسول اللہ عملی طور پر کم اور گفتار میں زیادہ اور کردار میں عملی فرق نظر آتا ہے۔ گستاخ رسالتۖ پر روسی صدر پیوٹن کے ریمارکس نے مسلمانوں کے دل جیت لئے۔مسلمان اور عرب حکمرانوں کو یہ نصیب نہیں ہوا۔ ضیاالحق کے دور میں اسلامی کلچر ،ٹی وی سے لیکر تعلیمی اداروں تک نظر آتا تھا۔ اسکے بعد جتنے بھی حکمران آئے ۔ ان مالیاتی اداروں کی سخت پالیسیوں کے آگے نہ ٹھہر سکے۔ پاکستان میں ننگی تہذیب کو پھیلانے کے لئے ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی ادارے قرضہ دیتے ہیں۔ ان کے قرضہ دینے کی شرائط میں مغربی تہذیب وتمدن، تعلیمی نظام میںتبدیلی ، بینکنگ میں سود ، عوام پر ٹیکس، لبرل سوسائیٹی کا احیا اور مدارس کا کنٹرول شامل ہوتا ہے،اللہ تبارک اُمت کو موجودہ دور کے فتنوں سے مخفوظ فرمائے ،آمین )
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here