ماں کی نعمت، ماں کی دعا جنت کی ہوا!!!

0
1148
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

ماں بغیر توقع کے محبت کرتی ہے ۔ ماں کی میم محبت کسی لغت ولہجہ میں منفی نہیں ہوتی ہے ۔ ماں پر تو رحمت الٰہی ہے ، ماں کرم پروردگار ہے،ماں شمہ رحمت الٰہی ہے، رحم مادر سے صلہ رحمی ہے ۔ ماں ہر حال میں مہربان رہتی ہے ، دوجہاں کے سردار کو اللہ نے یتیم پیدا کیا تاہم ماں کی نعمت موجود تھی۔ رحمت لالعالمین ہو تے ہوئے وہ جو اپنی مادر گرامی کے احترام کے لئے اُٹھتے تھے۔پالنے والی ماں بیبی حلیمہ کے احترام میں بھی اٹھتے تھے ۔ ماں کے بغیر آدم کو نبوت ملتی ہے مگرعظمت نہیں جبکہ باپ کے بغیر عیسٰی کو عظمت مل جاتی ہے ۔گویا عظمت کے لئے رحم مادر ضروری ہے۔ماں کا وجود نعمت الٰہی ہے ۔ ماں کی دعا جنت کی ہوا ہے۔ باپ کے آنے پر ایک بار احترام واجب ہے تو ماں کے آنے پر 2بار احترام واجب ہے۔ باپ سنتی نماز کے دوران بلائے تو نماز کو مختصر کرنے کا حکم ہے ،ماں بلائے تو نماز سنتی توڑ دینے کا حکم ہے ۔ خدا نخواستہ والدین میں جھگڑا ہو تو انکا جھگڑا ختم کرانے کا حکم ہے ختم نہ ہو تو ماں کا ساتھ دینے کا حکم ہے ۔
حضور پاک فرماتے تھے گناہوں کی بخشش کے لیے ماں کی دعا درکار ہے، لفظ ام بغیر نسبتوں کے 9بار آیا ہے جبکہ لفظ حج بھی اتنی ہی بار آیا ہے ۔ نبی کریم نے ماں کے چہرے کی طرف دیکھنے کو حج کے برابر قرار دیا اور فر مایا جنت ماں کے قدموں تلے ہے ،ماں کی دعا اولاد کے حق میں جلدی قبول ہوتی ہے ۔حضرت موسیٰ ہمیشہ طور پر جاتے تھے ،فورا دعائیں قبول ہوجاتی تھیں ،ایک بار تاخیر ہوئی تو خالق نے کہا موسی اب سنبھل کے مانگنا وہ ماں مر گئی جسکی وجہ سے ہم جلدی دعائیں قبول کر لیا کرتے تھے ۔ ایک جوان نے حضور سے پوچھا میں نے قسم کھائی ہے کہ جنت کی دہلیز کا بوسہ لو نگا ۔آپ نے فر مایا ماں کے قدموں کا بوسہ لے اس نے کہا ماں مرگئی اس کی قبر کا بوسہ لے ۔گویا سرور کائنات کی نظر میں ماں کی قبر کا بوسہ جنت کی دہلیز کا بوسہ شمار ہوتا ہے ۔ماں باپ کی 24گھنٹے کی خدمت کو نبی پاک نے ایک سال کے جہاد فی سبیل اللہ کے برابر قرار دیا ، حضور نے فر مایا جنت کی خوشبو 500میل کی مسافت سے آتی ہے مگر عاقِ والدین کو یہ خوشبو محسوس نہ ہو گی ۔
اللہ تعالیٰ بچے کی ولادت سے پہلے ماں کے سارے گناہوں کو معاف فر ما دیتا ہے تاکہ تربیت کے لیے آغوش مادر پاک ہو ۔ حضرت مریم نے حضرت عیسیٰ کو مرنے کے بعد بلا یا تھا گویا ماں مر کے بھی مامتا نہیں بھولی ۔ یہی حال امام حسین کا بھی تھا انہیں بھی بند کفن سے ماں نے بلایا ۔ شیاطین کو انڈوں سے جنم دیا جاتا ہے تاکہ وہ شکم مادر کی نعمت سے محروم رہیں ۔
یعنی اللہ اپنے دشمنوں کو نعمت شکم مادر نہیں دیتا ہے۔ ماں کے لیے لفظ ام ہے جسکا معنی ماں کے علاوہ مرکز بھی ہے ۔ اسی لیے اُمت کا مادہ بھی اُم سے نکلا ہے ۔ ام القری مکہ کو کہتے ہیں یعنی وہ بستیوں کی ماں یعنی مرکز ہے ۔ ام الکتاب آیات محکمات کو کہتے ہیں باقی متشابہات ہیں۔گویا محکم رشتہ صرف ماں کا ہے باقی رشتے متشابہ ہیں ۔ ماں باپ کے ساتھ نیکی کا حکم الٰہی قرآن میں موجود ہے ۔ حضور اکرم کو جوامی کہا جا تا ہے اسکی وجہ ہے کہ وہ ماں کی طرف منسوب تھے ۔یتیم پیدا ہوئے یا مکہ والے ام القری والے ۔ حضور پاک بی بی حلیمہ سعدیہ کو اپنی ماں کی طرح سمجھتے تھے۔ امام زین العابدین اپنی پالنے والی ماں کے ساتھ کھا نا نہیں کھاتے تھے اور فرماتے تھے میں نہیں چاہتا کہ اس لقمہ پر نظر جائے جس پر میری ماں کی نظر ہو ۔ حضرت موسٰی کی ماں کی طرف اللہ نے وحی کی تھی کہ اپنے بچے کو دودھ پلا کر سپرد بحر (سمند ر ) کردے۔ ہم رسول کی حیثیت سے تجھے واپس دیں گے ، جب تابوت جارہا تھا تو ماں دیکھتی ہی رہی ۔ یہ ماں کی مانتا ہے ۔ ماں کا احترام نبی وامام پر بھی فرض ہوتا ہے ۔ اللہ ماں سے وہ کام لیتا ہے جو نبی ورسول سے لیا کرتا تھا۔ یعنی تربیت وتہذیب نفس ،ماں جو عقائد واعمال آغوش سے سکھاتی ہے۔ وہ قبر کی دیواروں تک ساتھ رہتے ہیں ۔ اسی لیے شریعت کا حکم ہے کہ شریکِ حیات کے انتخاب سے پہلے اس کے کردار وعمل اور حسب ونسب کا خیال رکھا جائے تا کہ نسل کی تعمیر ہو جن گھروں میں نیک مائیں ہوتی ہیں وہ گھر جنت مآب ہوتے ہیں۔انکی اولادیں باکردار ہوتی ہیں ۔
امام خمینی سے شاہ ایران نے پوچھا تھا کہ آپ کی فوج کہاں ہے؟ تو آپ نے فر مایا تھا میری فوج ماں کی گودوں میں ہے۔ گویا وہی فوج بعد میں انقلاب ایران کا سبب بنی۔ حضرت سیدہ فاطمہ لزھرا نے مولا علی سے کہا تھا کہ میرے بعد بنی کلابیہ خاندان کی عورت سے شادی کیجئے گا کہ انکی وفا معروف ہے گویا شیر مادر تربیت اولاد کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ بعض اوقات شیر مادر صلب پدر کی تاثیر پر غالب آجاتا ہے ۔ فرعون کے دربار میں جب حضرت موسیٰ گئے تو پالنے والی پاک دامن ماں کا اہتمام پہلے کیا اور فرعونیوں نے موسیٰ کو دریا سے بعد میں نکالا ۔
نجف کے ایک مجتہدبتاتے ہیں میں ایک بار روضئہ امام حسین پر کربلا گیا جہاں میں نے زیارت کرتے ہوئے دیکھا کہ ایک شخص مٹی میں بھرے پائوں کے ساتھ آیا ہے جو امام حسین پر سلام کرتا ہے اور امام حسین قبر سے اسے جواب سلام دیتے ہیں ۔ یہ مجتہد بڑے حیران ہوئے ہیں کہ آج تک ہمیں تو امام حسین نے جواب نہیں دیا ۔ روضہ سے باہر نکل کر اس جوان کو خلوت میں پاکر پوچھا اے اللہ کے ولی آپکا کونسا عمل خدا کو پسند آیا ؟وہ جوان رونے لگا اس نے کہا میں ولی اللہ نہیں ایک عام سا انسان ہوں ۔ البتہ یہ راز آپکو بتا تاہوں ۔ میری ماں بوڑھی ہوچکی تھی انہوں نے کہا مجھے روضئہ امام حسین لے چلو میں نے عرض کیا میرے پاس کرایہ اجرت کی رقم نہیں ہے ۔ ماں نے کہا مجھے اپنے کندھوں پر بٹھا لو میں امام حسین سے تمہاری سفارش کرونگی ۔ میرے مرنے کے بعد بھی یاد رکھوگے ۔ ماں کو مرے تو سالہاسال ہوگئے ہیں مگر میں جب بھی امام حسین کے روضہ پر آتا ہوں، سلام کرتا ہوں، امام حسین مجھے جواب دیتے ہیں ۔
قارئین ! جنکی مائیں زندہ ہیں وہ اپنی ماں کے قدموں پر ہاتھ رکھ کر دعائیں لیں جنکی مائیں چلی گئی ہیں وہ انکو دعا وخیرات سے یاد کر یں ۔ اللہ کریم ہم سب کو توفیق خیر دے کہ ماں کے حقوق ادا کر سکیں ۔آمین ثم آمین
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here