ہم گزشتہ کافی عرصے سے جہاں وطن عزیز میں ہونیوالے غیر معمولی، غیر جمہوری اور تشویشناک صورتحال اور غیر انسانی رویوں کے حوالے سے قارئین کو آگاہی دیتے رہے ہیں وہیں عالمی سطح پر ہونیوالے واقعات، حقائق و تنازعات پر بھی اظہار خیال کرتے رہے ہیں۔ تاہم جو واقعہ 28 فروری کو وائٹ ہائوس میں امریکی صد رڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینین صدر زیلنسکی کے درمیان ہوا ہے وہ ہمارے ہی نہیں غالباً کسی بھی ذی شعور کے وہم و گمان میں نہیں ہو سکتا تھا۔ جہاں تک ہماری یادداشت و علم کا تعلق ہے ڈپلومیٹک ورلڈ میں دو سربراہان مملکت کے درمیان یہ اس طرح کا پہلا واقعہ ہے جب ایک صدر مملکت نے مہمان صد رکو بذریعہ سیکیورٹی بے دخل کیا ہو۔ جو کچھ ہوا، جس طرح کی نزاعتی صورتحال پیدا ہوئی اس کا احوال نہ صرف امریکی چینلز و دیگر ذرائع ابلاغ بلکہ دنیا بھر کے میڈیا، ڈپلومیٹس دانشوروں و تجزیہ کاروں کے توسط سے قارئین تک پہنچ چکا ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ ٹرمپ ٹیم اور زیلنسکی کے درمیان تکرار اور بحث نیز وائٹ ہائوس سے زیلنیسکی کی بیدخلی کے اثرات کیا ہونگے، محض امریکہ و یوکرین کے درمیان ہی نہیں موجودہ عالمی منظر نامے کے حقائق میں اس کے نتائج کس حد تک جا سکتے ہیں۔ قبل اس کے کہ اس تلخ واقعہ کے عالمی سطح پر اثرات کا احاطہ یا تجزیہ کیا جائے، ان دونوں رہنمائوں کی شخصیت و فطرت پر نظر ڈالی جائے۔ یوکرین کے صدر کا پس منظر ایک اداکار بلکہ کامیڈین کا ہے اور سوویت یونین سے یوکرین کی علیحدگی کے بعد 2014 میں روس کے تنازعہ و بعض علاقوں پر قبضے کے سبب 2022ء میں جنگ کے تناظر میں آزادی کی جدوجہد میں زیلینسکی کا صدر بن جانا نیز یورپ بلکہ نیٹو ممالک کی بھرپور سپورٹ اور امریکہ کی حربی و مالی سپورٹ نے اسے اور یوکرین کی جدوجہد آزادی کو تقویت بخشی۔ سابقہ امریکی صدور خصوصاً بائیڈن انتظامیہ نے روس کیخلاف یوکرین کی پوری مدد کی، اس محاذ آڑائی میں نیٹو ممالک بھی یوکرین و زیلنیسکی کے طرفدار رہے اور ان وجوہ کی بناء پر نہ صرف زیلینسکی و یوکرین جدوجہد نے قوت پکڑی اور روس مخالف تحریک میں اضافہ ہوا۔ اب ذرا ٹرمپ کے حوالے سے تجزیہ کریں تو موصوف کو بھی شوبز بوائے اور ڈیل کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ دیگر امریکی صدور کے برعکس ٹرمپ کا ایجنڈا امریکی سرمایہ کاری و سرمایہ کاروں کے حق میں بیرونی ملکوں کی سرمایہ کاری کی تخفیف اور امدادی قرضوں و گرانٹ کی تنسیخ بنیاد ہیں۔ دوسری بار صدر بننے کے ایجنڈے اور صدارت کے حصول کے بعد ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز اس کے ارادوں کی واضح نشاندہی ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے متذکرہ بالا منشور کے حوالے سے جہاں ایک جانب فلسطین و اسرائیل کے تنازعے کے حل کیلئے غزہ کے فلسطینیوں کو کہیں اور بسانے کی تجویز اور غزہ کو امریکہ کے زیر انتظام لانے کی تجویز دی ہے جس کی ساری مسلم و عرب اُمہ نے مخالفت کی ہے وہیں یوکرین کی جنگ کے خاتمے کیلئے روسی صدر سے پینگیں بڑھانی شروع کی ہیں۔ ٹرمپ اس امر کا قرار کر چکے ہیں کہ ان کے پیوٹن کیساتھ کئی رابطے ہوئے ہیں لیکن اس بات کو پوشیدہ رکھا ہے کہ یہ رابطے کب کب ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ اس حوالے سے یورپی ممالک خصوصاً برطانیہ، فرانس، جرمنی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ لیکن ٹرمپ کی سرد مہری سے انہیں نا امیدی کا ہی سامنا کرنا پڑا۔ حالیہ واقعہ جہاں ڈپلومیٹک تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے وہیں اس بات کا مظہر ہے کہ عالمی منظر نامہ یکسر تبدیل ہو سکتا ہے۔
کالم کو مزید تفصیل سے بچانے کیلئے یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ متذکرہ ملاقات سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ترتیب دی گئی تھی۔ ٹرمپ کے اپنی ٹیم کے ہمراہ اوول میں پریس کانفرنس کا انعقاد، نائب صدر وینس کے تیکھے سوالات، فوکس کے نمائندے کا سوٹ نہ پہننے پر اعتراض اور ٹرمپ کا منرل معاہدے پر اصرار اس حقیقت کی نشاندہی تھا اور زیلینسکی کا جو روس یو کرین جنگ کے خاتمے یا امریکی حمایت کا تصور لے کر آیا تھا، متضاد رویوں کے سبب جذبات کا اظہار اس نہج پر پہنچا کہ ایک سربراہ مملکت کو سیکیورٹی کے ذریعے نکال دیا گیا۔ حالات جس رُخ پر جا رہے ہیں وہ کسی بھی طرح خوش کن نہیں کہے جا سکتے۔ روس یا پیوٹن امریکی انتظامیہ کے اس عمل پر بغلیں بجا رہے ہیں تو یورپی، نیٹو ممالک شدید رد عمل اور زیلنیسکی کی حمایت میں کھڑے ہوئے ہیں، چین بھی یوکرین کی حمایت میں ہے جبکہ دوسری جانب امریکی نیٹو ممالک کی سیکیورٹی و مالی گرانٹ (جو 1945 سے تسلسل تھا) کی منسوخی، امریکہ و روس کی قربت اور یورپی ممالک پر ان واقعات کے حوالے سے چین کی جانب مراجعت ان امکانات کو ظہار کرنا ہے کہ عالمی منظر نامے میں تبدیلی آسکتی ہے اور آنے والا وقت تیسری عالمی جنگ نہ بھی سہی نئے عالمی بلاک کا سبب بن سکتا ہے۔
٭٭٭