نیویارک (پاکستان نیوز) ایک ماہ سے جاری انتخابی مہم کے دوران پہلی مرتبہ ری پبلیکن کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹس کے جوبائیڈن کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ، نیشنل پول کے نتائج کے مطابق صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے بائیڈن کو 47 کے مقابلے میں 48ووٹوں سے پیچھے چھوڑ دیا ہے ، 3 فیصد افراد نے کہا کہ وہ کسی تیسری پارٹی کو ووٹ دیں گے جبکہ دو فیصد افراد نے کہا کہ انھوں نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے ۔نیشنل سروے اکیس ، بائیس اور تیئس اکتوبر کو منعقد کیا گیا جس کے دوران 1500 سے زائد شہریوں سے آن لائن اور فون پر رائے حاصل کی گئی ، سروے کے دوران 52 فیصد افراد نے ٹرمپ کی کارکردگی پر اظہار اطمینان کیاجبکہ 46فیصد نے ٹرمپ کی کارکردگی کو ناکافی قرار دیا ، فائیو تھرٹی ایٹ کی جانب سے کیے گئے سروے میں ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدوار جوبائیڈن کو فلوریڈا سے 2.3 ، پنسلوینیا سے 5.1، ونسکانسن سے 7.1 ، مشی گن سے 8.3 فیصد برتری پر ظاہر کیا گیا ہے جبکہ ٹرمپ کو اوہائیو میں 1.5 فیصد ، ٹیکساس میں 1.2 فیصد برتری پر قرار دیا گیا ، صدارتی انتخابات سے صرف ایک ہفتہ قبل فائیو تھرٹی ایٹ کی جانب سے کیے گئے۔ سروے میں بتایا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابات میں کامیابی کے امکانات 12 فیصد ہیں جبکہ ریزموسین کی جانب سے کیے گئے سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ انتخابات میں صرف 7دن باقی ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ریٹنگ بالکل نچلی سطح تک گر چکی ہے ،اس کے مقابلے میں بائیڈن کی ریٹنگ اہم ریاستوں میں قابل قدر طور پر اوپر رہی ہے ، نئے پول کے مطابق وسکانسن میں ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدوار بائیڈن کو ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں 9پوائنٹس سے برتری حاصل ہے ، سرویز کے دوران ایسے ووٹرز کی تعداد بھی خاصی زیادہ رہی ہے جنھوں نے اپنی رائے دینا مناسب نہیں سمجھی ہو سکتا ہے کہ ایسے ووٹرز کی بڑی تعداد بھی انتخابات کے روز ٹرمپ کے لیے حیران کن سرپرائز ثابت ہو ، ٹرمپ کے خلاف عدالتی کارروائی کے دنوں میں بھی ان کی ریٹنگ کافی نچلی سطح پر تھی جوکہ 44.6 فیصد کے قریب رہی اور جنوری میں مزید 42 فیصد تک گر گئی تھی جس کے بعد فروری میں ریٹنگ 44.1 فیصد پر آنے میں کامیاب رہی تھی ۔واضح رہے کہ امریکی ریاستوں میں ووٹنگ کا سلسلہ ختم ہونے کے اوقات میں فرق ہے۔ مشرقی ریاستوں میں یہ سب سے پہلے ہوتا ہے اور مقامی وقت کے مطابق ووٹنگ کا سلسلہ شام سات بجے ختم ہوتا ہے۔اس کے بعد مختلف ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی ہوتی ہے، جس کی لمحہ بہ لمحہ خبر آتی رہتی ہے۔امریکی صدور کا چناو¿ محض ووٹوں کی تعداد پر نہیں کیا جاتا بلکہ اس بنیاد پر کہ انھوں نے کون کون سی ریاستوں میں برتری حاصل کی ہے۔ ہر ریاست کے پاس الیکٹورل کالج میں ووٹوں کی ایک مخصوص تعداد ہوتی ہے اور فاتح وہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ الیکٹورل کالج ووٹس اکٹھے کر پائے۔یہ ضروری نہیں کہ جو امیدوار زیادہ ریاستیں جیتا ہو، وہی صدر بنے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ریاست کو اس کی آبادی کے تناسب سے الیکٹورل کالج میں ووٹ ہوتے ہیں۔الیکٹورل کالج میں ک±ل 538 ووٹر ہوتے ہیں اور واضح برتری کے لیے 270 یا اس سے زیادہ ووٹ درکار ہوتے ہیں،سنہ 2016 میں الیکشن کی رات ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی وقت کے مطابق صبح ڈھائی بجے فاتح قرار دے دیا گیا تھا۔اس سے قبل امریکی ریاست وسکانسن میں ان کی جیت کی تصدیق ہوئی تھی جس کے بعد ان کے حصے میں آنےوالے الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی تعداد 270 سے بڑھ گئی تھی۔اس سے قبل کئی ریاستوں میں ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کی صرف مخصوص لوگوں کو اجازت ہوتی تھی، مثلاً معمر افراد جن کی عمر 65 برس سے زیادہ ہو، وہ جو ریاست سے باہر ہوں یا بیمار ہوں وغیرہ تاہم اب زیادہ تر ریاستوں میں ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کی کھلی اجازت ہے ،سنہ 2016 کے صدارتی انتخاب میں تمام ووٹوں کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ بذریعہ ڈاک موصول ہوا تھا۔اس بار حکام کو توقع ہے کہ کورونا کی وبا کے پیش نظر تقریباً آٹھ کروڑ ووٹ بذریعہ ڈاک ڈالے جائیں گے۔