نیویارک (پاکستان نیوز) جنوبی افریقہ نے اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم نسل کشی کے مترادف ہے۔اس مقدمے کے اندراج اور اسرائیل کے بین الاقوامی عدالت انصاف میں اپنا دفاع کرنے کے فیصلے نے گریٹ ہال آف جسٹس میں ججوں کے ایک پینل کے سامنے ایک بڑا چیلنج لا کھڑا کیا ہے۔امکان یہی ہے کہ اس مقدمے کی کارروائی برسوں تک جاری رہے گی۔ مقدمے کا محور نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا سے متعلق 1948 کا کنونشن ہے جو دوسری عالمی جنگ اور ہولوکاسٹ کے بعد تیار کیا گیا تھا۔ اس کنونشن میں نسل کشی کی وضاحت کی گئی ہے جس کے مطابق ”کسی قومی ، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے قتل کا ارتکاب نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔جنوبی افریقہ نے اپنے کیس کو مضبوط بنانے کیلئے دلائل کے طور پر84 صفحات پر مشتمل دائر کردہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے اقدامات ”نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کے ایک بڑے حصے کو تباہ کرنا ہے۔” درخواست کی گئی ہے کہ وہ قانونی طور پر پابند احکامات کا ایک سلسلہ جاری کرے۔ عدالت یہ اعلان کرے کہ اسرائیل نے ”نسل کشی کنونشن کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہے اور اس خلاف ورزی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔” دائر کردہ مقدمے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت اسرائیل کو حکم دے کہ وہ غزہ میں مخاصمانہ کارروائیاں بند کرے کیونکہ یہ کنونشن کی خلاف ورزی کے مترادف ہو سکتی ہیں، معاوضے کی پیشکش کرے اور غزہ میں ہونے والی تباہی کی تعمیر نو کے لیے فنڈز فراہم کرے۔ جنوبی افریقہ کا استدلال ہے کہ ایسا کرنا عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے کیونکہ دونوں ملک نسل کشی کنونشن پر دستخط کر چکے ہیں۔ کنونشن کے آرٹیکل۔9 میں کہا گیا ہے کہ قوموں کے درمیان تنازعات کو اس کنونشن کے تحت عالمی عدالت انصاف میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ ساؤتھ افریقہ کی جانب سے دائر کردہ مقدمے میں او آئی سی کے 57 رکن اسلامی ممالک ، ملائشیا، ترکیہ، اردن، بلیویا، مالدیپ، نمیبیا اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر سے قانونی ماہرین اور فلاحی تنظیموں کی حمایت حاصل ہے۔جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا سمیت جنوبی افریقہ میں متعدد افراد نے غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے حوالے سے اسرائیل کی پالیسیوں کا موازنہ جنوبی افریقہ کی نسلی علیحدگی پر مبنی نسل پرست حکومت سے کیا ہے۔ اسرائیل ایسے تمام الزامات کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔ فلسطینی وزارت خارجہ نے جنوبی افریقہ کے اس اقدام کا خیرمقدم کیا، اور آئی سی جے سے مطالبہ کیا کہ وہ ”فلسطینی عوام کو مزید نقصان پہنچنے سے روکنے” کے لیے فوری کارروائی کرے۔ قانونی ماہرین کے مطابق نسل کشی کنونشن کے آرٹیکل 2 کے مطابق، نسل کشی میں کسی قومی، نسلی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کیے جانے والے اعمال شامل ہیں۔ماہرین کے مطابق ”جہاں اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ ارادہ ہے یا کوئی ارادہ نہیں”۔مگر اسرائیلی حکام کی جانب سے گذشتہ چند مہینوں میں دئیے گئے انٹرویوز اور بیانات کی روشنی میں یہ ثابت کرنا مشکل نہیں کہ اسرائیل غزہ میں یہ کارروائیں ارادتاً کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر تین سرکردہ اسرائیلی عہدیداروں نے اس ارادے کا اعلان کیا ہے، جس کا آغاز اسرائیلی صدر ہرزوگ سے ہوا جب انہوں نے کہا کہ غزہ میں ”کوئی بے گناہ نہیں”، وزیر دفاع جنہوں نے کہا کہ اسرائیل غزہ کے لوگوں پر اجتماعی سزا لگائے گا کیونکہ وہ ”انسانی جانور” ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی ایک بیان میں بائبل کی تشبیہ کا استعمال کیا جس کی وسیع پیمانے پر تشریح نسل کشی کی کال کے طور پر کی گئی۔یاد رہے کہ ہولوکاسٹ میں بچ جانے والا سابق جج ہارون براک عالمی عدالت میں اسرائیل کا مقدمہ لڑیگا۔ براک کی قیادت میں اسرائیل نے 15 رکنی قانونی ٹیم مقرر کی ہے جو دی ہیگ کی عالمی عدالت میں جنوبی افریقا کی طرف سے اسرائیل پر جنگی جرائم کے دائر مقدمیمیں تل ابیب کی طرف سے پیروے کرے گی۔یاد رہے کہ بین الاقوامی عدالت انصاف جنوبی افریقہ کی طرف سے لائے گئے ایک مقدمے کی سماعت کا آغاز ہو گیا ہے جس میں اسرائیل پر غزہ جنگ میں نسل کشی کا الزام عاید کیا گیا ہے۔ جنوبی افریقا نے غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی مہم کو فوری طور پر روکنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔دوسری جانب اسرائیل نے اس کیس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عزم کیا ہے۔ اس کے لیے اسرائیل نے اپنے چوٹی کے ماہرین قانون کو چنا ہے جن میں ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے ایک یہودی جج اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ہارون براک کو بھی شامل کیا ہے جو غزہ میں مبینہ جنگی جرائم کے الزامات پر اسرائیل کا دفاع کریں گے۔خبر رساں ادارے کے مطابق اس مقصد کے لیے اسرائیل ہولوکاسٹ کے ایک متنازعہ زندہ بچ جانے والے شخص سمیت سینیر قانونی ماہرین کو الزامات کا سامنا کرنے کے لیے دی ہیگ بھیج رہا ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیل کو مقدمہ کے فریق کی حیثیت سے ایک قانونی ماہر بھیجنے کا حق حاصل ہے۔ اس نے اسرائیلی سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس کو پندرہ رکنی پینل میں شامل کرنے کے لیے مقرر کیا جو اس الزام پر عالمی عدالت میں قانونی جنگ لڑیں گے۔اسرائیل نے بین الاقوامی ججوں کے پینل میں شامل ہونے کے لیے ہارون براک کا انتخاب کیا ہے جو کئی دہائیوں سے ملک کے قانونی شعبے کا حصہ ہیں۔ہارون براک ایک سابق پراسیکیوٹر اور امن مذاکرات کار تھے جنہوں نے 1995ء سے 2006ء تک اسرائیل کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی برتاؤ سے متعلق کئی مقدمات پر فیصلے سنائے۔87 سالہ بین الاقوامی شہرت یافتہ جسٹس ریٹائرڈ ہارون براک کو Yale اور Oxford سمیت ممتاز یونیورسٹیوں سے اعزازی ڈگریاں بھی مل چکی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ہولوکاسٹ سے بچ جانے والوں میں شامل تھے۔ اسے لتھوانیا میں کوونو یہودی بستی بھیج دیا گیا تھا جب وہ پانچ سال کا تھا۔ یہ ذاتی تفصیلات دوسرے ججوں کے ساتھ ان کی گفتگو میں اہم ہو سکتی ہیں۔یہاں اہم پہلو یہ ہے کہ صرف چند ماہ قبل وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں نے اسرائیل کی عدلیہ میں اصلاحات کے اپنے منصوبوں کو آگے بڑھاتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ براک کو ہدف تنقید بنایا تھا۔یہاں تک کہ حکومتی سرپرستی میں مظاہرین نے تل ابیب میں ان کے گھر کے سامنے دھرنا دیا اور سیاست دانوں نے کنیسٹ میں تقریروں میں ان پر تنقید کی۔ لیکن ہیگ میں اس مسئلے کا سامنا کرتے ہوئے نیتن یاہو کاموقف تیزی سے بدل گیا۔ یہاں تک کہ ان کے ناقدین کو بھی حیران کر دیا۔ اسرائیل کو امید ہے کہ ماہر قانون ہارون براک اور ان کی ٹیم اپنے تجربے سے دی ہیگ کی عدالت میں جنوبی افریقہ کو قانونی شکست سے دوچار کریں گے، جہاں انہیں غزہ میں اسرائیلی فوجی مہم کے دوران اسرائیلی فوج پر نسل کشی کے الزمات پر اسرائیل کا دفاع کرنا ہوگا۔ بین الاقوامی عدالت انصاف کے ساتھ معاملہ کرنا اسرائیل کے لیے غیر معمولی واقعہ ہے۔ اسرائیل عام طور پر اقوام متحدہ اور بین الاقوامی عدالتوں کو غیر منصفانہ اور متعصبانہ قرار دیتا آیا ہے۔ بائیکاٹ کے بجائے شرکت کا فیصلہ اسرائیلی اندیشوں کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ جج اسرائیل کو حماس کے خلاف جنگ روکنے اور بین الاقوامی سطح پر اس کی شبیہ کو مسخ کرنے کا حکم جاری کرسکتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے سلوک پر طویل عرصے سے سخت تنقید کرنے والے جنوبی افریقہ نے نیدرلینڈ میں اقوام متحدہ کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے۔ جب کہ اسرائیل نے نسل کشی کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے دفاع کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کی کارروائیاں بین الاقوامی قانون کے مطابق ہیں۔ وہ شہریوں کو نقصان پہنچانے سے روکنے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہا ہے۔ وہ ساتھ ہی حماس پر شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا الزام عائد کرتا ہے۔ امکان ہے کہ کیس برسوں تک چلتا رہے گا لیکن جنوبی افریقہ کے میمورنڈم میں عدالت سے یہ درخواست بھی شامل ہے کہ وہ اسرائیل کو “غزہ میں اپنی فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر معطل کرنے” کے لیے عبوری احکامات جاری کرے۔یاد رہے کہ اسرائیل کے غزہ پر غیرمسبوق فضائی، زمینی اور سمندری حملے میں 23,200 سے زائد فلسطینی مارے گئے ہیں۔ ہر روز سیکڑوں افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔ مارے جانے والوں میں دو تہائی خواتین اور بچے بتائے جاتے ہیں۔ اسرائیلی فوجی مہم کے نتیجے میں غزہ کی 2.3 ملین آبادی کا تقریباً 85 فیصد بے گھر ہوا اور ان میں سے بہت سے لوگوں کے پاس واپس جانے کے لیے گھر نہیں ہیں۔ ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی بھوک سے مر رہی ہے۔