گلگت بلتستان کے سابقہ چیف جسٹس جج اور ذوالفقار علی بھٹو شہید لاء یونیورسٹی کے وائس چانسلر رانا جناب رانا شمیم کے حلفیہ بیان میں سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے بارے میں انکشافات کا سلسلہ جاری تھا کہ جس میں انہوں نے رانا صاحب کی موجودگی میں فون کر کے کسی جج کو ہدایت کی تھی کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ اور تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 25 جولائی 2018ء کے انتخابات تک کے انعقاد سے پہلے ضمانت پر رہانہ کیا جائے، ابھی رانا شمیم کے حلفی بیان پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے نوٹس اور عام بحث و مباحثہ جاری تھا کہ پاکستان کے مشہور انویسٹی گیٹو رپورٹر و صحافی احمد نورانی جوکہ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی کرپشن کی سلطنت کی راز افشاں کرتے رہے ہیں نے ایک اور دھماکہ کر دیا کہ جس میں انہوں نے امریکی مصدقہ اور معتبر فرانزک کمپنی گیریٹ ڈسکوری سے تصدیق شدہ آڈیو جاری کر دی کہ جس میں سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کسی فون پر ہی الفاظ دھرا رہا ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز کو ضمانت نہ دی جائے جس سے پورے ملک میں کہرام مچ چکا ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کو عمران خان کو اقتدار میں لانے کیلئے کس بُری طرح استعمال کیا گیا ہے جس سے وہ انکار کر رہے ہیں مگر اپنے آڈیو کیخلاف کسی عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹا رہے ہیں تاکہ سچ اور جھوٹ سامنے آجائے۔ مزید برآں عاصمہ جہانگیر مرحومہ کی سالانہ برسی پر سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل کے تعاون سے اس دفعہ کانفرنس کا انعقاد ہوا جس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار کے سابقہ صدر اور وکلاء تحریک کے ہیرو علی احمد کُرد نے فرمایا کہ ‘ایک جنرل اور بائیس کروڑ عوام” جس کا مطلب، مقصد جنرل فیض حمید کے سامنے پاکستان کے 22 کروڑ عوام بے بس اور بے کس ہو چکے ہیں جنہوں نے ججوں، سیاستدانوں، دانشوروں اور صحافیوں کو خوفزدہ کر رکھا ہے جو عدلیہ کے ججوں کو ڈرا دھمکا کر فیصلے لے رہے ہیں جس کی مثال جسٹس شوکت صدیقی ہے کہ جن سے کہا گیا کہ آپ نوازشریف اور مریم نواز کی ضمانت مت لیں ورنہ نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ جن کے انکار پر سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے جسٹس شوکت صدیقی کو برطرف کر دیا جس کے بعد انہوں نے انصاف کیلئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جس کو آج تک انصاف نہ ملا۔ آخر کار پاکستان بار کونسل نے ان کا معطل شدہ لائسنس بحال کر کے روزی روٹی کمانے کیلئے موقع فراہم کیا ہے جو جنرل حمید اور جسٹس ثاقب نثار نے چھین لیا تھا۔ جو کہ بار کونسل کا بہت بڑا عمل ہے کہ جس سے جسٹس شوکت صدیقی کو مزید سچ کیلئے لڑنے کا موقع ملا حالانکہ جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں کرنے والی سپریم جوڈیشل کونسل کو جنرل حمید سے پوچھ گچھ کرنا چاہیے تھا کیا انہوں نے جسٹس شوکت صدیقی کو یہ حکم دیا تھا یا نہیں جو کہ عدالتی تاریخ کا بدترین فیصلہ تھا کہ جس سے ایک قابل بہادر اور نڈر جج کا کیرئیر تباہ و برباد کر دیا گیا۔ خدا کا شکر ہے کہ آج پاکستان میں پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار وجود میں لائی گئی ہے جو عدلیہ کو بچانے میں پیش پیش ہے۔ بہر کیف عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں بڑے بڑے سیاستدان، دانشور، صحافی اور وکلاء برادری مدعو تھی جنہوں نے جنرلوں کیخلاف ان کی سیاسی معاملات میں مداخلت پر کُھل کر تقاریر کیں جس میں سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس قاضی عیسیٰ، جسٹس اطہر من اللہ بھی موجود تھے۔ جس میں جسٹس گلزار نے علی احمد کرد کی تقریر کی مخالفت کرتے ہوئے فرمایا کہ عدلیہ آزاد اور خود مختار ہے مجھے کسی نے ڈرایا اور دھمکایا نہیں ہے ، یہ جانتے ہوئے کہ ان کے صاحبزادے پر گولی چلائی گئی تھی جبکہ جسٹس شاہ کے بیٹے کو اغواء کیا گیا تھا۔ جسٹس قاضی فائیز عیسیٰ کو رسواء کیا گیا ،چیف جسٹس پشاور وقار سیٹھ کو مار دیا گیا۔ جج ارشد ملک کو دبائو میں لا کر نوازشریف کیخلاف فیصلہ لیا گیا جس کا وہ اقرار جرم کر کے اس دنیا سے رخصت ہوا ہے علاوہ ازیں علی احمد کُرد کی تقریر کی حمایت کرتے ہوئے جسٹس قاضی عیسیٰ اور جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کُرد صاحب نے صحیح فرمایا ہے کہ جنہوں نے ہماری کمزوریوں کو اُجاگر کیا ہے جس کو ہم ٹھیک کر رہے ہیں حالانکہ انہوں نے بھی سابقہ چیف جج کے حلفیہ بیان پر یکطرفہ نوٹس لیا ہے جبکہ ایسے موقع پر سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کو بھی نوٹس بھیجنا چاہیے تھا جن پر ایک قومی جرم کا الزام لگا ہے جس کی صحافی احمد نورانی نے آڈیو کے ذریعے تصدیق کی ہے۔ بہرحال پاکستان میں آڈیو اور ویڈیو کا دور چل نکلا ہے جو ایک دوسرے کیخلاف سچے اور جھوٹے آڈیو اور ویڈیو لا کر پاکستان کی نا اہل اور نالائق ترین حکومت کو ہیجان میں مبتلا کر رہے ہیں جن کے پاس ماسوائے الزامات کے علاوہ کچھ نہیں ہے جن کے دور حکومت میں پاکستان تباہ و برباد ہو چکا ہے جو عنقریب دیوالیہ پن فائل کرنے جا رہاہے جس میں پاکستان کے قومی اثاثے بھی بین الاقوامی ساہوکاروں کے ہتھے چڑھ جائیں گے عوام میں بے تحاشا انتشار اور خلفشار پیدا ہو رہا ہے جن کو مہنگائی اور بیروزگاری، بھوک و ننگ نے ستا رکھا ہے جو روز خود کشیاں کرتے نظر آرہے ہیں ایسے میں عوام میں غربت و افلاس اور بھوک و ننگ کی وجہ سے خانہ جنگی کے اثرات پیدا ہو رہے ہیں جو ملک میں مذہبی، نسلی اور لسانی جھگڑے پیدا کر کے کسی بھی ہولناک خانہ جنگی برپا کر سکتے ہیں کہ دنیا صومالیہ، یمن، شام، عراق اور افغانستان کو بھول جائیں گے جب پاکستان کے 22 کروڑ عوام مسلح جتھوں، گروہوں، جنگجوئوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کا قتل عام کرینگے لہٰذا اس دن سے ڈرا جائے۔
٭٭٭