حکومت جانتی ہے کہ حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے اسلام آباد کو ٹارگٹ کرنا ضروری ہے۔ اگر اسلام آبا محفوظ ہے تو حکومت بھی محفوظ ہے۔اگر سیاسی تحریک اسلام آباد سے دور ہے تو سیاسی عدم استحکام بھی اسلام آباد سے دور ہے۔ تحریک انصاف کا اسلام آباد میں جلسہ کامیاب ہوا یا ناکام ؟ اس پر مختلف باتیں ہورہی ہیں لیکن میرے نزدیک یہ کوئی اہم بات نہیں ہے۔ انصافیوں کے نزدیک یہ ایک کامیاب جلسہ تھا۔ ان کے مطابق نہایت نا سازگار حالات اور حکومتی پابندیوں کے باجود یہ ایک کامیاب جلسہ تھا۔ جب کہ تحریک انصاف کے مخالفین کی رائے میں یہ ایک ناکا م جلسہ تھا۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ جلسے کا اتنا شور تھا لیکن کیا ہوا؟ کونسا پہاڑ ٹوٹ گیا؟ کونسی حکومت ختم ہو گئی؟ کونسا پاکستان کے جلسوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا؟ بلکہ یہ تحریک انصاف کے پہلے جلسوں کے مقابلہ میں ایک چھوٹا جلسہ تھا۔ آپ دیکھ لیں جلسہ گاہ میں جگہ خالی تھی۔ کے پی حکومت کی مکمل سہولت کاری کے باوجود کوئی بڑا جلسہ نہیں ہو سکا۔ یوں دیکھا جائے تودونوں طرف اپنے اپنے دلائل ہیں۔ جلسے کی کامیابی اور ناکامی کو اس کے اہداف کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔کیا جلسہ کرنے کے مقاصد حاصل ہوئے؟ اب سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف نے یہ جلسہ کیوں کیا۔ اگر بانی تحریک انصاف کی رہائی کو ممکن بنانے کے لیے ایک بڑی تحریک کے آغاز کے لیے یہ جلسہ کیا گیا ہے، تو ہمیں اس تناظر میں اس جلسہ کی کامیابی اور ناکامی کو دیکھنا ہوگا۔ ویسے تو جلسے میں مقررین نے دو ہفتے کی ڈیڈ لائن دی ہے کہ اگر دو ہفتوں میں بانی تحریک انصاف کی رہائی ممکن نہیں ہوئی تو ہم خود چھڑ الیں گے۔ اس کا مقصد ہے کہ تحریک انصاف بانی تحریک انصاف کی رہائی کے لیے فیصلہ کن تحریک چلانا چاہتی ہے۔ اسی لیے اس نے حکومت کو ڈیڈ لائن دی ہے۔ اب اس جلسہ کے اہدف اور اس کی کامیابی اور ناکامی کا سارا تجزیہ اس ڈیڈ لائن کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ میری رائے میں تحریک انصاف نے جتنی مشکل اور کوششوں سے اسلام آباد میں جلسہ کیا ہے۔ دوبارہ اسلام آباد میں جلسہ کرنا بہت مشکل ہوگا۔ یہ سوال سب پوچھتے ہیں کہ حکومت کو بار بار جلسہ ملتوی کرانے کا کیا فائدہ ہوا۔ میں سمجھتا ہوں حکومت ایک جلسہ کو اتنا مشکل بنانا چاہتی تھی تا کہ دوسرے جلسہ کی بات ہی نہ ہو۔ حکومت نے اسی لیے اسلام آباد میں جلسے اور جلوس کے حوالے سے ایک سخت قانون بھی پا س کیا ہے تا کہ دوبارہ جلسے کی بات ہی نہ ہو سکے۔ حکومت کو علم ہے کہ ایک جلسے سے نہ تو حکومت ختم ہو جانی ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی اہداف حاصل ہونے ہیں۔ لیکن حکومت کی کوشش ہے کہ جلسے کا انعقاد اتنا مشکل بنایا جائے کہ کسی بھی قسم کی تحریک نہ بن سکے۔ اور ایک جلسہ میں ہی اتنی قوت لگا دی جائے کہ اگلے جلسہ کی بات ہی نہ ہو سکے۔ میں سمجھتا ہوں کسی نہ کسی حد تک حکومت اس کوشش میں کامیاب ہوئی ہے۔ آج تحریک انصاف ایک جلسہ کو ہی اپنی بہت بڑی کامیابی سمجھ رہی ہے۔ حالانکہ سیاسی تحریک چلانے کے لیے ایک جلسے کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ اس لیے نیا قانون بھی بنایا گیا ہے۔ اگر جلسہ کرنا تحریک انصا ف کی کامیابی ہے تو جلسے کو اسلام آباد سے دور رکھنا حکومت کی کامیابی ہے۔اب اس تناظر میں تحریک انصاف کے جلسے کو دیکھیںکہ آگے کیا ہوگا۔ اگر اسلام آباد میں کچھ نہیں ہوا توکیا تحریک انصاف پنجاب میں کوئی بہت بڑا جلسہ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ دوستوں کی رائے میں تحریک انصاف تو اسلام آباد میں بھی کوئی بڑا جلسہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اسی لیے تمام لوگ کے پی سے لائے گئے ہیں۔ اس جلسہ میں نوے فیصد لوگ کے پی سے آئے ہیں۔ پنجاب سے کوئی قافلہ نہیں آیا۔ اسلام آباد سے بھی لوگ بڑی تعداد میں نہیں آئے۔ کے پی سے کتنی دفعہ لوگ لائے جا سکتے ہیں۔ اور کتنے جلسے کے پی سے لوگ لا کر کیے جا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پنجاب سے ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی کوئی قیادت نہیں ہے۔ لاہور میں کئی دفعہ جلسے کا اعلان کرکے ملتوی کیا جا چکا ہے۔ کیا تحریک انصاف اس وقت لاہور میں جلسہ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ میں سمجھتا ہو مشکل ہے۔ لاہور میں کے پی سے لوگ لائے نہیں جا سکتے اورپنجاب میں ایسا ماحول نہیں ہے۔ کیا راولپنڈی میں جلسہ کیا جا سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں مشکل ہے۔ اسلام آباد وفا ق ہے۔ وہاں کے پی سے لوگ لانے کا پھر بھی کوئی جواز تھا۔ ماضی میں روایات موجود ہیں۔ لوگ پورے ملک سے آکر اسلام آباد میں احتجاج کرتے ہیں۔ لیکن کے پی سے لوگ پنجاب لانا ذرا مشکل ہے۔ مسائل زیادہ ہوںگے۔ اس لیے مجھے اس ایک جلسہ کی روشنی میں پنجاب میں کوئی تحریک چلتی نظر نہیں آرہی۔ اگر تحریک انصاف کا یہ مقصد تھا کہ ایک جلسہ ان کے کارکن کے جذبات کو دوبارہ گرم کر دے گا۔ اسی گھر سے نکلنے پر مجبور کر دے گا۔ وہ حکومت سے ٹکرانے کے لیے دوبارہ تیارہو جائے گا تو شاید ایسا نہیں ہو سکا۔ کے پی کے کارکنوں کو صوبائی حکومتی تحفظ حاصل ہے۔ لیکن پنجاب کا کارکن نو مئی کے بعد گھر بیٹھ گیا ہے۔ وہ کسی مشکل میں پڑنے کے لیے تیار نہیں۔ نو مئی کے مس ایڈونچر نے اس کی منہ زوری، بے خوفی اورقانون سے بالا تر ہونے کی نفسیات پر کاری ضرب لگادی ہے۔ بے خوفی کی کمر توڑ دی ہے۔ کئی لیڈران اور کارکن جیل میں رہ کرحقائق سے آشنا ہوگئے ہیں جب کہ باقی کو پتہ ہے کہ اگر کہیں گھیراو جلاو ہوگیا تو معافی نہیں ملے گی۔ اس لیے کیا پنجاب کا کارکن ماضی کی طرح بدمست ہوکر جلسے میں شرکت کے لیے گھروں سے نکل آئے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ کارکن باہر نہیں نکلے۔ تحریک انصاف کے پنجاب کے لیڈر مفرور ہیں۔ وہ گرفتاری دینے کے لیے تیار نہیں۔ان کے بارے میں رائے ہے کہ وہ گرفتاری کے خوف سے کے پی میں چھپ کر بیٹھے ہیں ۔ حماد اظہر اس کی بڑی مثال ہیں۔ جو لوگ پنجاب سے انتخاب میں تحریک انصاف کی ٹکٹ پر جیتے ہیں۔ بس وہ پارلیمان میں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک اب عوامی جدو جہد کرنا ان کا کام نہیں۔ وہ زمین گرم کرنے کو تیار نہیں۔ وہ اب آرام سے پارلیمانی جدو جہدکرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے آج تحریک انصا ف جن مشکلا ت کا شکار ہے، ان میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں قیادت کا فقدان ہے جب کہ کارکن باہر نکلنے کے لیے فرینڈلی ماحول چاہتے ہیں، جہاں انھیں سب کچھ کہنے اور کرنے کی آزادی ہو۔ پنجاب میں جلسہ کرنے کے لیے کے پی سے لوگ لانیکاکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس طرح پنجاب کے سیاسی ماحول کو گرم نہیں کیا جا سکتا ۔یا پاکستان کے ان علاقوں میں اسے تھوڑا بہت سہارا ملتا ہے جہاں پشتو بولنے والے موجود ہیں۔جہاں تک گنڈا پور کی تقریر اور اسٹبلشمنٹ کے خلاف تقریر کی بات ہے ۔ یہ سوال اہم ہے کہ اس کا فائدہ کیا ہوگا اور نقصان کیا ہوگا۔ اسی میں آگے کا منظر نامہ لکھا جا سکتا ہے۔ کیا حکمران اتحاد اس سے خوش نہیں ہوگا۔ گنڈا پور کی تقریر حکومت کے لیے یقینا باعث اطمینان ہوگی۔ ان کی بدتمیزی اور بدزبانی وفاقی یا صوبائی حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے کوئی خطرے کی بات نہیں۔ گنڈا پور نے اپنی تقریر میں جو کہا ہے، شاید وہ اس بات پر دبائو میں ہیں کہ پی ٹی آئی کے اندر انھیں اسٹبلشمنٹ کا نمایندہ کہا جاتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل سے نہیں چھڑایا جا سکتا۔ یہ بات سمجھیں گے تو جلسہ کی کامیابی اور ناکامی کا خود بخود فیصلہ ہو جائے گا۔ کے پی میں جتنے جلسے کر لیں، بلوچستان میں پشتو بیلٹ میں جتنے مرضی جلسے کرلیں، اگر پنجاب نہیں تو کچھ نہیں۔سندھ میں جلسے نہیں ہوتے تو ناکامی ہی ناکامی ہے۔ اس حقیقت کو سمجھیں۔ پنجاب ہی مرکزی حکومت کو طاقت دیتا ہے۔ کل بھی پنجاب ہی طاقت ہے اور آج بھی پنجاب ہی طاقت ہے۔ بانی پی ٹی آئی کو پنجاب نے ہی وزارت عظمی تک پہنچایا، انھیں پنجاب کی اشرافیہ نے ہی ہیرو بنایا، اب بھی پی ٹی پی کی طاقت کا انحصار پنجاب پر ہی ہے۔اگر پنجاب میں پی ٹی آئی غیرفعال ہے تو سمجھیں پاکستان میں ہی غیرفعال ہے۔اگر یہی صورتحال رہی تو پی ٹی آئی کا درجہ اے این پی کے برابر ہوجائے گا۔ جو صرف کے پی میں ہی اپنا وجود رکھتی ہے۔
٭٭٭