چلی ہے رسم کہ دنیا کے کسی کھیل کی کوئی ٹیم کو بھی جیتنا مقصود ہو تو وہ پاکستان کا دورہ شروع کردے۔ پاکستان کے در در دھول دھول خاک خاک کا مزا چکھنے کے بعد جیت کا سہرا اپنے سر باندھ لے۔ کرکٹ میں تو پاکستانی ٹیم کو سیریل شکست خوردہ کالقب مل چکا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ایسا نہ ہوتا اگر پاکستانی ٹیم کے ہر کھلاڑی کو اے بی سی ڈی پڑھنا آتا ہوتا۔ ابھی تو کوئی پاکستانی ٹیم کا کھلاڑی اپنے کوچ سے گفتگو کرتا ہے تو کہتا ہے ” آئی کوشش ڈو” کوچ جواب دیتا ہے کہ ” تم خاک کوشش کرتا ہے۔ بہتر یہ ہوتا کہ تم گلی ڈنڈا ہی اپنے باجرا کے کھیت میں کھیلا کرتے۔ ”
پاکستان ٹیم کے کھلاڑی نہ صرف جاہل جھپٹ بلکہ کند ذہن بھی ہیں۔ وہ پویلین میں بیٹھ کر اونگھ رہے ہوتے ہیں۔ اُنہیں یہ بھی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اپنی ٹیم کے بیٹسمین کے کھیل کو جو پِچ پر کھیل رہا ہوتا ہے اُس کا مشاہدہ کریںتاکہ وہ جس طرح سے آؤٹ ہو وہ اُسی غلطی کو نہ دہرائیں۔ لیکن بنگلہ دیش سے سیکنڈ میچ کی دوسری اننگز میں ایک پاکستانی کھلاڑی رائٹ اسٹروک لگانے پر کیچ آؤٹ ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے دوسرا پاکستانی بیٹر ٹھیک اُسی مقام پر ٹھیک اُسی طرح کا رائٹ اسٹروک لگاتا ہے اور وہ بھی آؤٹ ہوجاتا ہے ۔ کیا وہ اتنا بڑا احمق تھا ، کیا اُس کی سوجھ بوجھ اتنی زیادہ منجمد ہوچکی تھی ، کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ بنگلہ دیش کے فیلڈر زوہاں پر تعینات ہیں اور وہ کسی بھی کیچ کو مِس نہیں کرینگے۔ صرف یہی نہیں پاکستان کا تیسرا بیٹسمین بھی یکے بعد دیگر اُسی مقام پر رائٹ اسٹروک لگانے پر کیچ آؤٹ ہوگیا تھا۔ پاکستان کے کھلاڑی محمد علی جو صفر پر آؤٹ ہوے تھے وہ بھی اِسی طرح کے کیچ آؤٹ کا شکار ہوے تھے۔ جو موقع شناس کھلاڑی ہوتے ہیں جب وہ بیٹنگ کیلئے جاتے ہیں تو وہ پِچ پر پہنچ کر اپنے ارد گرد کا معائنہ کرتے ہیں اور اتنے ذہین ہوتے ہیں کہ وہ اِسے یاد رکھتے ہیں کہ کہاں کہاں حریف ٹیم کے فیلڈرز تعینات ہیں، تب وہ سینچری بناتے ہیں۔ پاکستان کی بنگلہ دیش سے شکست کا صدمہ اپنے وطن کے ہر شعبہ حیات پر پڑا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے تو غم سے چور ہوکر اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے۔ اُن کی بیوی نے اُس سے پوچھا کہ” کیا یہ اُسی قسم کی طلاق تو نہیں جسے ہم جیو ٹی وی پر دیکھتے ہیں”۔ اُس نے جواب دیا کہ” نہیں یہ اُس قسم کی طلاق ہے جسے جیو ٹی وی کا ہیرو اپنی ذاتی زندگی میں دیتا ہے ، لیکن اُس کا لہجہ فلمی انداز کا ہوتا ہے”۔ اُس کی بیوی نے غصے میں جواب دیا کہ ” تو پھر سنبھالو اپنی ہانڈی اور چائے کی کتیلی ۔ تمہارا باپ آ کر تمہارے لئے کھانا پکائیگا۔ اور پہلوان جی کے قریب سے بھی نہ گذرنا ، ورنہ وہ تمہاری گردن توڑ کر رکھ دیگا۔ بلاؤ ذرا اوبر کو میں اپنے بابا کے گھر جا رہی ہوں۔ ” یہ سن کر ہمارے دوست نے کہا کہ” کیا وہ ایک دِن تک کا انتظار کر سکتی ہے تاکہ وہ دوبارہ سوچ لے”۔ میرے دوست کو شکوہ تھا کہ اُس کی بیوی اُس کے ساتھ ٹی وی پر میچ نہیں دیکھ رہی تھی ، اور جب اُس نے اُسے میچ دیکھنے کیلئے کہا تو اُس نے جواب دیا کہ جہنم میں جائے کرکٹ۔ کیا کبھی بھی پاکستان کی ٹیم جیتی ہے۔ ” ہمارے دوست کو اُس کی یہ بات غیر محب وطانہ معلوم ہوئی۔
ہمارے دوسرے دوست نے تو اِس سے کہیں بڑا دھماکہ کردیا۔ جب پاکستان کے بلے باز یکے بعد دیگر آؤٹ ہورہے تھے تو وہ شکاگو کی ایک پچیس منزلہ عمارت سے اپنے ٹی وی سیٹ کو نیچے پھینک دیا۔ خدا کا شکر ہے کہ نیچے کوئی شخص موجود نہ تھا ۔ لیکن ٹی وی کے گرنے سے ایک اتنا بڑا دھماکہ ہوا کہ اُس بلڈنگ کے تمام رہائشی اپنے اپارٹمنٹ سے بھاگ کر نیچے آگئے۔ اُنہوں نے سمجھا کہ شاید کسی نے بم مارا ہو۔
جب میچ ختم ہونے کے بعد کھلاڑی باہر نکل رہے تھے تو کچھ کرکٹ کے شائقین بنگلہ دیش کے کھلاڑیوں کو پھولوں کا ہار پہنا رہے تھے۔ ایک پاکستانی کھلاڑی یاس بھری نگاہوں سے اُنہیں دیکھ رہا تھا۔ اُس سے صبر نہ ہوسکا اور اُس نے کہہ دیا کہ” ایک ہار مجھے بھی پہنادو”۔ ہار پہنانے والے شخص نے جواب دیا کہ ”تمھارے لئے جوتے کا ہار موجود ہے۔ ”
پاکستانیوں کی اکثریت اِس شش و پنج میں مبتلا ہے کہ جس ٹیم کو بنگلہ دیش سے مقابلے کیلئے بھیجا گیا تھا ، کیوں نہیں اُس کے بجائے لاہور قلندرز کو اِس کا موقع فراہم کیا گیا ، یا نہیں تو لاہور قلندرز، ملتان سلطانز اور اسلام آباد یونائیٹڈکی ٹیموں سے کچھ کچھ کھلاڑی منتخب کر لئے جاتے اور نتائج اﷲ تعالی کے
ہا تھ چھوڑ دیا جاتا۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں یہی ہوتا ہے کہ اسکول کی ٹیم کو ملک کی نیشنل ٹیم سے مقابلہ کرا یا جاتا ہے تاکہ اپنی صلاحیت کا پتا چل سکے۔
پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی تربیت کا معما بھی اب تک حل نہ ہوسکا ہے، کیونکہ جب سے ٹیم نے پاکستان کی فوج سے کاکول ایکیڈیمی میں تربیت حاصل کی ہے اُس وقت سے تاہنوز شکست در شکست
کھا رہی ہے۔ پتا نہیں تربیت میچ جیتنے کیلئے دی گئی تھی یا شکست کھانے کیلئے۔ البتہ یہ بات علم میں آئی ہے کہ کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو پہاڑ پر چڑھنے ، دریا میں چھلانگ لگانے اور جوتا پالش کرنے کی تربیت دی گئی تھی، اور یہ خبر بھی منظر عام پر آئی ہے کہ بعض دبنگ کھلاڑیوں کے گریباں کو بھی کھینچا تانی کیا گیا تھا جس سے وہ رو پڑے تھے۔ بہرکیف اُنہیں تربیت گورے کوچوں سے اِس طرح کی دینی چاہیے تھی جیسی کہ بنگلہ دیش کی ٹیم نے حاصل کی تھی۔ پاکستان کی ٹیم کی تربیت کا معاملہ انتہائی سنگین اختیار کرگیا ہے اور پی سی بی انگلینڈ اور آسٹریلیا کے اچھے کوچوں کو لانے کے بجائے خود پاکستان کے ریٹائرڈ کھلاڑیوں سے
خدمات حاصل کی گئیں تھیں۔