معرکہ حق و باطل!!!

0
114
شبیر گُل

اقتدار کی جنگ کو معرکہ حق و باطل قرار دیکر نوجوانوں کے جذبات برانگیختہ کرنا۔ سیاسی بساط لپٹنے کو الیکشن کمپئین میں تبدیل کرنا۔ سیاسی جنگ کوامرالمعروف قرار دینا۔خود مذہب کارڈ استعمال کرنا۔ دوسروں کو متعون کرناوزیراعظم کا وطیرہ ہے۔ سیاست نام ہے دھوکہ،فریب، مکاری اور عیاری کا۔ کیا جمہوریت کی بالادستی چھانگا مانگا۔سندھ ہاس کے لوٹیاور جہانگیر ترین کے جہاز میں باڑے کے ٹٹو جمع کرناہے۔ تو ایسی پر لعنت۔ایسی جمہوریت نہ غربت ختم کی سکتی ہے اور نہ کرپشن ۔ سندھ ہاس نے عمران خان کے بیانیے کو مضبوط کیا۔ عوام مہنگائی، لاقانونیت، ناانصافی، مس گورنس، مس مینجمنٹ سب بھول چکے ہیں۔ حکومت کے مردہ گھوڑے میں جان پڑ چکی ہے۔ قارئین اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ تحریک عدم اعتماد نے حکومت کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی ،مہنگائی کے عذاب اور بیڈ گورنس پر پردہ ڈال دیا ہے ۔ امت مسلمہ کو اکٹھا کرنا والا اپنی پارٹی کے لوٹے اکٹھے کرنے سے قاصر ہے۔ لوٹوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شعبدہ باز ہے۔ گزشتہ ساڑھے تین سال سے ملنا گوارا نہیں کرتا۔اپنے اردگرد طبلچیوں کو اکٹھا کر رکھا ہے۔ منخرف اراکین کے خلاف،الزامات، دھمکیاں اور گالیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ حکومت ترلے منتیں بھی کر رہی ہے اور دھمکیاں دیکر واپس بھی لانا چاہ رہی ہے۔ انکے خلاف عدالت کا دروازہ بھی کھٹکٹایا ھے۔ چند ارکان تو واپس آچکے ہیں ۔تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اتحادیوں کے رویہ پر ہے ۔ حکومت اور ایوزیشن کا جوڑ ۔ عصاب شکن مقابلہ شروع۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ چودہ ارکان پورے سسٹم کو ڈی ریل کردیں ۔ ان ارکان کی وجہ سے فیڈرل اور پانچ صوبائی حکومتوں پر تلوار لٹکی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ایسے میں وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لینا پڑ سکتا ہے۔حکومتی اتحاد 171 اور اپوزیشن اتحاد کے پاس 164 ارکان ہیں۔آئندہ چوبیس گھنٹوں میں اونٹ کی کروٹ کا اندازہ ہو گا کہ وہ کس کروٹ بیٹھے گا۔اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد میں 161 ووٹ کاسٹ کئے۔ اتحادیوں نیووٹنگ میں حصہ نہ لیا۔اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے مزید گیارہ ووٹ درکار ہیں۔شہباز شریف،زرداری اور بلاول پارلیمنٹ کی راہ داریوں اپوزیشن قائدین کے چہروں کی ہوائیاں بھی اڑی ھوئیں تھیں۔عثمان بزدار کے مستعفی ھونے کے بعد نئے وزیر اعلی پرویز الٰہی ہوں گے ۔نمبرز گیم دلچسپ مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے۔تحریک عدم اعتماد ،حکومت اور اپوزیشن کے لئے پل صراط ثابت ہو رہی ہے۔سیاسی گرما گرمی عدم اعتماد کو عدم استحکام میں بدل رہی ھے۔اسپیکر اسمبلی آئینی ذمہ داری اور پارٹی وفاداری میں پھنس چکے ہیں۔قومی سیاست کا سب سے بڑا معمہ وزیراعظم کا ٹرمپ کارڈ تھا۔ پٹاری میں سے کچھ نہیں نکلا ھے۔ (کھودا پہاڑ عثمان بزدار نکلا)۔ویسے وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ انکا شکار کرنے تین چوہے نکلے ہیں۔ عمران خان صاحب اسے حق و باطل کی لڑائی کہہ رہے ھیں ۔ مغربی جمہوریت کی مثالیں دیتے رہے اچانک مذہبی کارڈ استعمال کرنا شروع کردیا۔خان صاحب اور یوتھییسمجھتے ہیں کہ ان کے علاوہ سب چور ہیں۔آدھے چور تو آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔جو انہی چوروں ڈاکوں کے ساتھ ملکر ڈاکے ڈالتے رھے ۔ جن کو صبح وشام رگیتے ہیں۔جن کو کل تک کوئی پوچھ نہیں رہا تھا آج وہ قابل قبول ہیں۔ایم کیو ایم جیسی مکروہ لیڈر شپ ہر روز نیا بیان جاری کرتی ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں میں انہوں نے مہاجروں کی لوٹ سیل لگا رکھی ھے۔ہر کوئی انکی بولی لگا کر چلا جاتا ہے۔مقبول صدیقی دو دن پہلے پیپلز پارٹی سے معاہدہ کی نوید سنا رہے تھے۔
اب حکومت سے مذاکرات فائنل کررہے۔
پیپلز پارٹی ایم کیوایم سے معاہدہ سائن نہیں کررہی۔ زرداری اور ن لیگ ایکدوسریسے نالاں ھیں۔ اس صورتحال میں عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اسلئے آئیندہ چند ہفتوں میں اس اتحاد کا شیرازہ بکھر سکتاہے۔زرداری کی انویسٹمنٹ ضائع ھوتی نظر آرہی ھے۔ کس کی جیت کس کی ہار ۔ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی۔ وعدے، دعوے، نعرے۔اور لارے۔خود سری،لاپرواہی،رعونیت اور مکتبرانہ لہجے،خان صاحب کے جوڑوں میں بیٹھ چکی ہے۔جس کی وجہ سے خان صاحب کو یہ دن دیکھنا نصیب ھو رہا ہے۔ ہر تقریر کا آغاز ایاک نعبد سے ھوتا ہے۔ جس کا اختتام تبرا اور گالیوں پر ھوتا ہے۔خان صاحب نے اپنے اتحادیوں کو وزارتوں کا طوق پہنانے کے بعد ساڑھے تین سال نہئں پوچھا ۔ لیکن آج در در پر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ گالیاں بھی دے رہے ہیں ۔
ہر در کی قسم ۔ ہر در سے گئے
ہر در پے گئے ۔کرسی کے لئے
وزیراعظم کی پریڈ گرانڈ کی تقریر میں سیاسی مخالفین کو گالم گلوچ کاچربہ تھی۔ ایسے ہی مریم نواز، خمزہ شہباز اور مولانا کی تقریر ایکدوسرے پر کیچڑاچھالنے کے علاوہ کچھ نہ تھی۔ یہ لڑائی چند ہزار جیالوں، پٹواریوں،
یوتھیوں اور جنونی مولوی کی ہے ۔ اس سے عوام کا کوئی لینا دینا نہیں۔ صرف دس فیصد لوگ ان مداریوں کے پیچھے آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے کے نعرے لگاتے ہیں۔ باقی نوے فیصد عوام کو مہنگائی اور روٹی سے غرض ھے۔ اپنے بچوں کی تعلم اور روزگار سے غرض ھے۔ مولانافضل الرحمن ،مریم نواز اور عمران خان کی انتہائی تلخ گفتگو نے سیاسی ماحول سے باہم تصادم کا خطرہ ھے۔ نہ ووٹ کو عزت مل سکی اور نہ سول بالادستی قائم ہوسکی۔ نہ روٹی کپڑا اور مکان مل سکا۔ نہ ھم ایشین ٹائیگر بن سکے ۔اور نہ ہی تبدیلی آسکی ۔ سیاسی گماشتے ایکدوسرے کے خون کے پیاسے دھمکیاں،
اشتعال،افراتفری،لڈیاں،دھمال،ٹھمکے، انٹرٹینمنٹ کا پورا اہتمام۔برگر فیملیز بھنگڑے ڈالتے ھوئے ریاست مدینہ کی تشکیل کے لئے امر بالمعروف کا جھنڈا لئے اسلام آباد براجمان ہیں۔تحریک انصاف کے نزدیک تحفظ ناموس رسالت کے لئے نکلنا ۔اسلام اور پاکستان سے دشمنی کہلاتاہے۔عمران خان کی کرسی بچانے کے لئے نکلنا۔معرکہ حق و باطل اور امر بالمعروف ۔
پنجاب کے وزیراعلی عثمان بزدار کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی ۔جس سے سیاسی پارہ مزید ہائی ھو چکا ہے۔ جس کے جواب میں عثمان بزدار کی جگہ چوہدریوں سے معاملات طے کر لئے گئے ھیں۔آسمان پہ تھوکا منہ پر گرتا ہے۔
اصولوں کی سودا بازی نہ کرنے والے وزیراعظم نے پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کو وزیر اعلی پنجاب کے لئے نامزد کر دیا۔
چند مکار ،بے ضمیرلوٹے ہر حکومت کے ساتھ رہے ہیں۔ ان کا سیاست میں داخلہ بند ہونا چاہئے۔موجودہ حکومتی کی ناکامی کی وجہ بھی یہی لوگ ھیں۔ شہباز شریف نے ن لیگ کے کارکنان سے کہا تھاکہ وہ باہر نکلیں مہنگائی مارچ میں شرکت کرکے نالائق حکمرانوں کو گھر بھیجیں ۔
مریم نواز کا کہنا ہے کہ فتح کا جشن منانے اسلام آباد جارہے ہیں۔
خمزہ شہباز کا کہنا ھے کہ ھمارا مقصد سونامی اور اسکی تباہی سے عوام کو نجات دلوانا ہے ۔مولانا اور عمران خان مذہبی کارڈ استعمال کر کے دھوکہ دے رہے ہیں ۔شیر، چوہے اور گیدڑ کے نام سے پکارا جارہا ھے ۔تلواریں میان سے نکل چکی ہیں۔ سیاسی فریقین لاکھوں حامیوں کو سڑکوں پر لاکر اپنی طاقت شو کراچکے ہیں۔ چوہدری برادران نے سیاست میں جو عزت کمائی تھی موجودہ سیاسی صورتحال اور چوہے بلی کے کھیل میں عزت کا جنازہ نکال چکے ہیں۔ چوہدریوں نے اپنے سر میں خاک ڈال لی ھے۔ ایم کیو ایم ہر دور میں بلیک میلرز اور بکا مال رہاہے۔ ایک پڑھی لکھی مہاجر کمئونٹی ان بکا، دہشت گرد قاتلوں کو کیسے ووٹ دیتے ھیں۔ اگر اب بھی مہاجر انہیں ووٹ دیں تو ان سے بڑا پڑھا لکھا جاہل دنیا میں نہیں پایا جاتا ھوگا۔
کراچی اور سندھ کے مہاجروں کو جماعت اسلامی کے ساتھ کھڑا ھونا چاہئے جو گزشتہ چار دہائیوں سے انکا مقدمہ ہر فورم پر لڑ رہی ھے۔ جماعت اسلامی کے رہنما آصف لقمان قاضی کا کہنا ھے کہ ھم لوٹا ازم پر مکمل پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔یہ پاکستانی سیاست کے ناسور ہیں ۔ جن لوگوں نے 2013 سے لیکر 2018 تک وفاداریاں تبدیل کرنے والوں پر تاحیات پابندی لگائی جائے تو پھر دیکھتے ہیں تحریک انصاف،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگیوں میں کون بچتا ھے۔
ایسیجمہوریت پر لعنت جہاں انصاف کے حصول میں عام عوام کئی کئی سال عدالتوں میں رل جاتے ھیں ۔ایک جنرل کی توہین پر دوسال قید اور توہین رسالت پر امریکہ کا ویزہ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here