سندرال کے گلچدہ کا خوف!!!

0
71
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

ایک روز عہد طفولیت میں حسب عادت میں اپنی زمینوں پر ڈھور ڈنگر چرا رہا تھا اور میرے دادا جی بابا ملک شیر محمد امین زمینوں کو پانی لگا رہے تھے ۔ میں نے دیکھاہمارے گائوں کا ایک ما شکی (ماچھی)ہماری زمینوں سے گز رہا تھا ۔اسکا قد سارے گاں والوں سے چھوٹا تھا۔ اسی لیے اسے عطا یا گلچدہ پکارا جاتا تھا- میرے دادا جی کو سارے گاں والے بابا پکارتے حتیٰ کہ انکے کزنز بھی ۔میں نے ایک روز دادا جی سے پوچھا تھا کہ سارا گائوں آپکو بابا پکارتا ہے ، کوئی ایسا یا ایسی بھی ہے جو بابا نہ کہتا یا کہتی ہو ؟ تو دادا جی حسرت و یاس کی آہ بھرتے ہوئے فرمانے لگے نہ پکار سکنے والی تیری دادی مر گئی ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون ! اس گلچدے نے اس روز زمینوں سے گزرتے ہوئے دادا جی سے کہا بابا ! آج سارا سندرال مجھ سے ڈر گیا ۔ دادا جی جو کمال کے عقلمند اور بذلہ سنج تھے برجستہ فرمانے لگے ۔ گلچدیا کہیں تو نہر پر ننگا تو نہیں نہا رہا تھا ؟ تو گلچدہ قہقہہ لگا کر کہنے لگا واہ بابا واہ مان گیا ہوں۔ ظاہر ہے جب کوئی بھی گلچدہ نہر پر کھڑا ننگا نہا رہا ہو گا تو شرفا تو منہ پھیر کر ہی چلیں گے اب گلچدہ خوش ہو !!! اور اپنی بہادری کے قصیدے پڑھے تو یہ اسکی بے وقوفی ہے۔ واضح رہے نہ وہ راہگیر بزدل تھے نہ یہ گلچدہ شجاع تھا اسلئے کہ شریف لوگ ننگوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور ننگے اپنے تئیں خیال خام میں سمجھتے ہیں کہ ہم نے میدان مار لیا ہے۔ آج سوشل میڈیا پر کچھ ایسے ہی ہو رہا ہے کچھ گلچدے ننگی گالیاں دے رہے ہیں ، فحش کلامی کر رہے ہیں ، کارٹون بنا رہے ہیں ،شرافت کا تیا پانچا کر رہے ہیں ، ایک دوسرے کو نیچا دکھا ہی رہے تھے اب شرفا کے پیچھے پڑ گئے ہیں.شرفا جب اجتناب و احتراز کر رہے ہیں تو انہیں بزدلی کے طعنے ملتے ہیں۔ شریف اپنی نیچر سے مجبور عضو معطل بن کر سائیڈ پر رہ رہے ہیں اور شیخیاں بگھارنے والے گلچدے پھولے نہ سماتے ہوئے اپنی شجاعت و بہادری کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ دادا جی نے گلچدے کو دائیں اور بائیں گال پر دو تھپڑ لگائے ۔ پھرکسی نے مرتے دم تک گلچدے کو ننگا نہاتے نہیں دیکھا۔تاہم وہ رنگ کا کالا ہر راہگزر کو کالا کہتا تھا اور پستہ قد ہر ایک کو پستہ کہتا تھا.یہ احساس کمتری رکھنے والوں کی پست ترین حرکت ہوتی ہے. میں نے ایک روز گلچدے سے مزاحا پوچھا کہ نہر پر کب نہاگے؟ تو کہنے لگا دن میں تو نہا نگا نہیں اب نہاں گا تو رات میں اور لنگی پہن کر ۔ایسے گلچدوں کو تقدیر دو تھپڑ تو مارے گی اور وہ شرم و حیا کی لنگیاں تو پہنیں گے مگر وہ اس وقت سارے شہر و نگر و دہر کو شرمسار کرچکے ہونگے۔ اے سوشل میڈیا کے گل چدو, حلال زادوں کو حرامی کہنے والو, شریفوں کو کمینے کہنے والو،بد زبانو،بے حیاو، گالی ماسٹرو،الزام تراشو،فریب کارو،مکارو،جھوٹو،قضا و قدر کا تھپڑ تو آچکا ہے بنی اسرائیل کے سروں پر لڑھکنے والے پہاڑ کی طرح تمہارے سروں پر سایہ فگن ہے ابھی بھی وقت ہے لگنے سے پہلے توبہ کر لو ! ورنہ گلچدے کی طرح عمر بھر نہر پر ننگے نہیں نہا سکو گے.مگر یہ جبری سترپوشی طمانچوں کے درد کو کم نہیں کر سکے گی۔فاعتبرو یا اولی الابصار: میں تو جب بچھو نما دوستوں سے ڈسا جاتا ہوں, یا احسانات کے بدلے میں احسان فراموشی دیکھتا ہوں,یا آستین کے سانپوں کی کینچلی ہر جا اترتی دیکھتا ہوں اور محسن کشی کے مناظر دیکھتا ہوں تو یہ شعر یاد کرتا ہوں دیکھاجو تیر کھا گے کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی جو گلچدے اپنی شناختیں چھپا کر پردہ شب میں دوسروں کا لباس پہن کر شب خون مارتے ہیں انہیں دیکھ کر یہ شعر یاد آتا ہے۔
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
کہ تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
سوشل میڈیا سے باہر بھی ہم پر تو گلپاشیاں ہوتی رہی ہیں. اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا کس و ناکس کو رتبہ و مقام دینا اور مسکین طبیعت رہنا ہے.اس لئے کہ یہ شعر وضاحت کر رہا ہے۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!
ہم تو گلچدے کی طرح نہر پر ننگے نہیں نہا سکتے اور گلچدو کی برہنگی سے چشم پوشی کرتے ہیںجس پر ہمیں گلچدے بزدلی کا طعنہ دیتے ہیں،ہماری مجبوری ذاتی شرافت ،خاندانی وقار اور لباس پیغمبر ص کی آبرو کی بقا ہے،اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ ننگے گلچدوں کے سامنے استقامت کی توفیق عطا فرمائے ،ان کے منفی پراپیگنڈوں، کذب بیانیوں،الزام تراشیوں اور کردار کشیوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر اپنے جد اعلی حضرت عباس علمدار علیہ السلام کی طرح مش حسینی سے وفا کی توفیق عطا کرے،ہم دونوں کی مجبوری ہے وہ ہمارے لیول پر آ نہیں سکتے ہم ان کے لیول پر جا نہیں جا سکتے لہٰذا قوس قزح کی طرح تنا اور فاصلہ برقرار رہے گا، گلچدہ کو دادا جی کا ایک بار ڈانٹنا اور تھپڑ مارنا ہمیشہ کے لئے انسان بنا گیاپھر مرتے دم تک گلچدہ ننگا نہیں نہایا ، لگتا ہے ہمارے گلچدے اتنے ڈھیٹ ہیں کہ شاید ان کو قبر کے گڑھے ہی ٹھیک کر پائیں،میں انشا اللہ استقامت کے ساتھ گلچدوں کا مقابلہ کروں گا،میں ان کے ننگے پن کو ختم نہ بھی کر سکا تو پبلک میں کم از کم انہیں شرمسار ضرور کر دوں گااور نہیں تو پبلک کو خبردار کر دوں گا۔
قارئین ہم وطن حب الوطنی میں اور ہم زبان ہم زبانی میں چھوٹی صلاحیت والوں کو بھی حوصلہ افزائی کے لئے بڑا کر کے پیش کرتے ہیںمگر بدقسمتی سے ہمارے ہم وطنوں نے ہماری نیکیوں کے جو بدلے دئیے ہیں ان کو یاد کر کے رشتے کے چچا ملک احمد ندیم قاسمی اعوان مرحوم آف انگہ خوشاب کا شعر آنکھوں کے سامنے آجا تا ہے!
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات ہے دفنائینگے اعزاز کے ساتھ
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here