موجودہ سیاسی بھونچال !!!

0
126
اوریا مقبول جان

قیامِ پاکستان سے پہلے ہی یہ دنیا دو عالمی طاقتوں، امریکہ اور سوویت یونین میں تقسیم ہو چکی تھی۔ ایسی دنیا میں کسی بھی ملک کا آزادوخودمختار رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا۔ خصوصا وہ ممالک جو وسائل کی دولت سے مالا مال تھے یا جن کی جغرافیائی اہمیت ایسی تھی کہ ان پر قبضہ کرنا ان دونوں طاقتوں کے لئے اپنی بالادستی قائم رکھنے کیلئے ضروری تھا۔ دونوں عالمی طاقتوں کے لئے لڑائی کا میدان ایشیائ، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے وہ ممالک تھے جو غریب تھے مگر معدنی و زرعی وسائل سے مالا مال تھے یا پھر جغرافیائی طور پر اہم تھے۔ نوزائیدہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت گزشتہ ایک صدی سے امریکہ کی پیش رو قوت برطانیہ اور سوویت یونین کی پیش رو طاقت زارِ روس کے درمیان تین افغان جنگوں اور مسلسل مداخلتوں کا باعث بنتی رہی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھارت کے ساتھ شروع دن سے ہمارے تعلقات کشیدہ ہو چکے تھے۔ کشمیر تنازعے، 1948 کی کشمیر جنگ اور اقوام متحدہ میں اس معاملے کی عالمی گونج کے بعد اب دونوں ملکوں کے لئے یہ ناممکن ہو گیا تھا کہ وہ کسی ایک طاقت کے زیر اثر اکٹھے رہ سکیں۔ پاکستان نے امریکہ کا انتخاب کیا اور مئی 1950 سے لے کر تاحال یعنی 72برس سے، ہمارا ملک اس دو سینگوں والی دنیا میں امریکی سینگ پر اٹکا ہوا ہے۔ امریکہ ایک ایسی عالمی قوت ہے جس کی خارجہ پالیسی اور غلبے کی تاریخ انتہائی خطرناک اور اپنے زیر اثر ممالک کے عوام، حکومتوں اور وسائل سے کھیلنے کی المناک داستان ہے۔ امریکہ نے ایسے ملکوں کو تگنی کا ناچ نچایا، جن کے بارے میں اسے ذرا سا بھی شک گزرا کہ وہاں اس کے مخالف سوویت یونین کے نظریات پنپ رہے ہیں یا وہاں کی حکومتیں امریکہ کے شکنجے سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ امریکہ اپنے زیر اثر ممالک کی سیاست اور حکومت میں اس قدر گھس جاتا ہے کہ وہاں کے عوام میں یہ محاورہ بن جاتا ہے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے سب امریکہ ہی کروا رہا ہے۔ پاکستان جس دن سے امریکی چھتری تلے آیا، یہاں دونوں طاقتوں کی کشمکش نے زور پکڑ لیا۔ لیاقت علی خان کی حکومت کے خلاف کیمونسٹ پارٹی نے چند ایک اعلی فوجی افسران کے ساتھ مل کر بغاوت کا منصوبہ بنایا اور یہ سازش نو مارچ 1951 کو طشت از بام ہو گئی، سازش کرنے والوں میں میجر جنرل اکبر خان کے ساتھ کئی اعلی افسران، اور سویلین میں کیمونسٹ پارٹی کے سربراہ سجاد ظہیر کے ہمراہ پاکستان ٹائمز کے مدیر فیض احمد فیض بھی گرفتار کر لئے گئے۔ حیدر آباد جیل میں مقدمہ چلا جس میں پاکستانی وکلا برادری میں سے دو نام بہت نمایاں ہوئے۔ استغاثہ کی طرف سے اے کے بروہی اور ملزمان کی جانب سے حسین شہید سہروردی۔ بغاوت کے اس مقدمے نے خاصی شہرت پائی اور عوام میں موجود امریکی نفرت نے اسے ہوا دی۔ حکومت نے عوامی تائید کے مظاہرے کیلئے 27 جولائی 1951 کو یوم دفاع منایا۔ ایسا اس لئے کرنا پڑا کیونکہ باغیوں نے عدالت میں اپنی بغاوت کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے جنگ بندی کر کے کشمیر کا سودا کیا تھا اس فیصلے کی وجہ سے فوج کے افسران میں بے چینی تھی۔ یوم دفاع کا جلوس کراچی کی شاہراہوں پر گشت کرتا ہوا، وزیر اعظم کی کوٹھی 10 وکٹوریہ روڈ پہنچا، جہاںلوگوں کے پر زور اصرار پر لیاقت علی خان نے ایک جذباتی تقریر کی اور اپنا وہ تاریخی مکہ لہرایا جو آج بھی انکے پورٹریٹ کا حصہ ہے۔ وہ تین منٹ تک اپنا یہ مخصوص مکہ تانے رہے۔ اس جوشیلی تقریر کے ٹھیک تین ماہ بعد 16 اکتوبر 1951 کو انہیں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے سید اکبر نے گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ مرحوم کے آخری الفاظ تھے اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے اگلے ہی دن بکنگھم پیلس لندن سے ایک شاہی فرمان جاری ہوا، جس کے تحت برطانوی ہند کی بیورو کریسی کے سابق رکن، ملک غلام محمد کو گورنر جنرل لگا دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ نے خواجہ ناظم الدین کو لیاقت علی خان کی جگہ وزیر اعظم نامزد کر دیا۔ دونوں نے 19 اکتوبر 1951 کو اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا۔ گورنر جنرل غلام محمد کے برسراقتدار آتے ہی امریکی کھیل اپنی پوری آب و تاب اور جولانی سے شروع ہو گیا۔ گورنر جنرل نے 26 جنوربی 1953 کو سندھ کے دو سابق وزرائے اعلی ایوب کھوڑو اور قاضی فضل اللہ کو چھ اور چار سال کی مدت کیلئے سرکاری عہدوں کے لئے نااہل قرار دے دیا۔ اس نے 17 اپریل 1953 کو منتخب وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو کابینہ سمیت، گورنر جنرل ہائوس بلایا اور ان سے استعفے طلب کئے۔ صرف قادیانی وزیر سر ظفر اللہ نے حکم کی بجاآوری کرتے ہوئے استعفی دے دیا مگر باقیوں نے انکار کیا تو ملک غلام محمد نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے کابینہ کو برطرف کر دیا۔ جانشینی کے لئے امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو چند دن پہلے ہی بلا لیا گیا تھا، اسے وزیر اعظم کے عہدے پر بٹھا دیا گیا۔ اس کے بعد پارٹیاں بدلنے، وفاداریاں خریدنے اور سیاسی جوڑ توڑ کا ایک ایسا کھیل شروع جو آج تک جاری ہے۔ امریکی ایما پر سابق سفیر محمد علی بوگرہ جسے وزیر اعظم لگا دیا گیا تھا، اسے پاکستان کی خالق مسلم لیگ کا سربراہ بھی منتخب کروایا گیا۔ محمد علی بوگرہ کو 238 ووٹ ملے جبکہ ان کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے قاضی محمد عیسی کو صرف 38 ووٹ ملے۔ یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب امریکی اس سطح تک پاکستان کی سیاست میں دخیل ہو چکے تھے کہ سیاسی پارٹی کا سربراہ تک اپنی مرضی کا منتخب کروانے لگے تھے۔ اس کے بعد سیاسی کشمکش کا ایک ایسا دورانیہ ہے جس میں بالکل اندازہ نہیں ہوتا تھا کون کب تک وزیر اعظم یا کابینہ کا رکن رہے گا۔ جواہر لال نہرو نے طنزیہ طور پر کہا تھا کہ میں اتنی شیروانیاں نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیر اعظم بدلتے ہیں۔ اسی سیاسی عدم استحکام کے دوران 29 نومبر 1953 کو پنجاب کے وزیر اعلی فیروز خان نون کے خلاف پاکستان کی تاریخ کی پہلی تحریکِ عدم اعتماد پیش کی گئی،جو قوت و لالچ کے بل بوتے پر ناکام رہی۔ دوسری جانب مشرقی پاکستان میں قائد اعظم کے دستِ راست حسین شہید سہروردی اور قراردادِ پاکستان پیش کرنے والے مولوی ابوالقاسم فضل حق نے مولانا بھاشانی کے ساتھ مل کر جگتو فرنٹ بنایا جس نے مسلم لیگ کی جنم بھومی بنگال میں ہی 1954 کے انتخابات میں پاکستان کی خالق اور اپنی ہی جماعت مسلم لیگ کو شکست دے دی۔ اس نو منتخب حکومت کے خلاف سازشوں کا آغاز ہوا۔ 15 مئی 1954 کو نارائن گنج میں خونریز فسادات برپا ہوئے، جن میں سات سو غیر بنگالیوں کو قتل کر دیا گیا۔ نیو یارک ٹائمز نے 23 مئی کو مولوی فضل حق کا انٹرویو شائع کیا، جس میں یہ فقرہ ان سے منسوب کیا گیا کہ ان کی وزارتِ اعلی کا بنیادی مقصد مشرقی بنگال کی آزادی ہے۔ مولوی ابو القاسم فضل الحق نے واضح اور واشگاف الفاظ میں اس کی تردید کی، لیکن انکے اس بیان کو بہانہ بنا کر ان کی وزارتِ اعلی برطرف کر کے مشرقی بنگال میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ 30 مئی 1954 کو مشرقی بنگال کی اسمبلی توڑ دی گئی اور فوج اور سول بیوروکریسی کے یکساں نمائندہ اور امریکہ کے منظورِ نظر میجر جنرل سکندر مرزا کو گورنر لگا دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی منتخب وزیر اعلی کے یہ الفاظ گونجے کہ ان کی حکومت کو ختم کرنا دراصل امریکی سازش ہے۔ وزیر اعلی بھی وہ جسے قراردادِ پاکستان پیش کرنے کا شرف حاصل تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here