ایک زمانہ تھا ہمارا تمہارا کوئی صدیوں پہلے کی بات نہیں ہے کہ علم کا بول بالا تھا۔علم بٹ رہا تھا اور بانٹنے والوں میں حکومت تھی اور اساتذہ مالی کی طرح بچوں کی نگہبانی کرتے تھے۔کلاس میں سخت تھے کھلکھلا کر ہنسنے کی اجازت نہ تھی کلاس میں ایسی ویسی کتاب(ناول)لانا جو معاشرے کو پراگندہ کرے ذہنوں کو وسری سوچ دے لانے پر پابندی تھی اور اگر معلوم ہو جاتا تو طالبعلم کو سزا ملی اور وہ کڑی سزا ہوتی والدین بھی نظر رکھتے تھے۔جہاں گھر میں شکایت پہونچی اور بچوں اور لڑکوں کی جان نکلی محلوں میں کھلی لائیبریریوں پر چھاپے پڑتے تھے۔ووکی ناول ملتی تو مالک کو ہتھکڑی لگ جاتی تھی یہی زمانہ تھا جب سعادت حسن منٹو کے افسانوں پر مقدمات بنے تھے جب کہ کھول دو کالی شلوار اور دوسرے افسانوں میں فحاشی نہیں تھی تحریر میں جیسے پڑھ کر جذبات اچھل پڑیں، ڈی ایچ لارنس کی ناول لیڈی چٹرلے کے محبوب کا ترجمہ پاکستان میں شجر ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔پنجابی فلموں کا دور چلا تو لارے اور پھیرے سے لڑکیوں کو کھیتوں میں لنگی پہنا کر پروڈیوسر نے زنداں دلان پنجاب کا نیا کلچر متعارف کرایا لیکن سنسر بورڈ نے فلم کے وہ مناظر کاٹ دیئے جو ذرا دل کھول کر آزادی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔فلم”خطرناک”نے بڑا نام کمایا ہمیں بھی شوق اٹھا کہ دیکھیں اس میں ایسی کونسی خطرناک بات ہے فلم میں کوئی خطرناک(ماردھاڑ)بات نہ تھی بس اتنا کہ سعود الرحمن(انڈیا کے فلم ایکٹر رحمن کے بھائی) نے انیتا، مزیہ اور نازلی کے رقصوں کو ایک نئے زاویئے(کیمرہ نیچے رکھ کر) سے فلمایا تھا اور بہترین عکاسی کا ایوارڈ لیا تھا۔فلم کے ہدایت کار رحمت علی تھے جنہوں نے اپنا شوق پورا کرنے کے لئے فلم بغیرسکرپٹ کے شروع کی تھی کسی نے انہیں امریکن ناولسٹ زین گرمے(1915)کی ناولLOWN STAR RANGERکے آزاد ترجمے کی کاپی پنجابی فلم کے سانچے میں ڈھال کردے دی تھی۔نیلو اور مصطفٰے قریشی کی اداکاری سے زیادہ لوگوں نے بتایا کہ اسکی فوٹو گرافی تھی اور فلم گولڈن جوبلی سپرہٹ ثابت ہوئی معلوم نہیں سنسر بورڈ سے وہ مناظر کیسے اوجھل ہوگئے یا پھر تعلقات کام میں آئے۔یہ1974کی بات ہے۔80کی دہائی میں ہماری فلم انڈسٹری نے دم توڑ دیا۔VCRکی ایجاد نے گھر گھر میں منی سینما گھر کھول دیئے اور معاشرے میں تعلیم کی جگہ فحاشی نے لے لی۔کلاشنکوف کا دور چلا تو جمعیت کے طلباء گروپ مار دھاڑ سے لبریز ہوگئے۔دوسری جانب ایم کیو ایم بھی میدان میں آگئی۔ اور یوں معاشرہ راتوں رات بگڑ گیا ایوب خان کے دور کے بعد بھٹو اور پھر ضیا الحق اپنے ایجنڈے(بیرونی) کے ساتھ ملک پر قابض ہوگئے م ذہبی جنونیت بڑھتی رہی ساتھ ہی بدعنوانی اور فحاشی کا بھی بول بالا رہا جو آج عروج پر ہے دنیا کے یورپی ممالک کی این جی او نے بھی معاشرے میں خرابی پیدا کرنے کے لئے اپنا اپنا حصہ ڈالا اور جاری ہے۔بیچ بیچ میں عوامی حکومتیں (وڈیرہ شاہی اور چودراہٹ) آتی رہیں رشوت عام، اغوائ، زنا، لاقانونیت، قبضہ مافیا کو فروغ ملتا رہا اور جاری ہے۔ساتھ ہی، دبئی، لندن اور پانامہ جیسے پری ملکوں میں مغرب کے ڈاکو وکلاء کی مدد سے منی لانڈرنگ کے اڈے کھلتے رہے ملک سے چرائی دولت باہر جاتی رہی اور جاری ہے۔یہاں کا مال وہاں اور وہاں کا مال یہاں۔ کا سلسلہ ہر حالات میں فروغ پا رہا ہے کوئی روک تھام نہیں۔بات صرف پاکستان کی کریں تو الجزیرہ کی خبر کے مطابق اہم عہدوں پر تعینات22ہزار سے زائد افسران(سول اور فوجی) دہری شہریت کے حامل ہیں۔جیسا کہ آپ نے دیکھا نون لیگ اور بڑے عہدوں سے ریٹارڈ فوجی دوبئی، لندن اور امریکہ میں اپنی بنیادیں ڈال چکے ہیں۔
اب آئیں عوام اور معاشرے کی بکھرتی صورتحال کی طرف تو سب سے بڑا نقصان تعلیم کے میدان میں ہوا۔ایک ایسے پیشے اور انکے اداروں کے ساتھ منگولوں والا سلوک کیا گیا نتیجہ میں میرٹ کا خاتمہ ہوگیا بالخصوص کراچی میں جہاں کا تعلیم یافتہ کسی مراعات(ملازمت، داخلہ یا اسکالر شپ)کا حقدار نہیں ترمیم18اور کوٹہ سسٹم نے جو80کی دہائی میں ختم ہوجانا چاہئے تھا۔جاہلوں اور نکموں کی فوج تیار کردی ہے بین الاقوامی قانون اور اسکے تحت میونسپاٹی نظام کو تباہ و برباد کردیا ہے۔جس میں سندھی پارٹی،مہاجر پارٹی اور وفاق شامل ہے ان لوگوں کو ملک کی عظمت اور ترقی سے کیا سروکار ہے۔غور کریں عمران خان سے جو امیدیں تھیں وہ صابن کا جھاگ ثابت ہوچکی ہیں اور نوجوان قوم کو ایک ایسے اندھیرے کنوئیں میں دھکیل دیا گیا ہے جہاں سے نکلنا مشکل ہے۔پچھلے ہفتے ساتویںT-20کرکٹ ٹورنامنٹ کا آغاز ہوا کراچی اسٹیڈیم میں اور آتش بازی کا مظاہرہ نیویارک میں ہونے والی4جولائی کی آتش بازی سے بھی بڑھ کر ایسا کیوں صرف یہ کہ یہ اب کھیل نہیں جس پر ہم فخر کریں کہ پاکستانی ٹیم نے ورلڈکپ جیت لیا یہ تجارت ہے جس سے بڑی کمپنیاں اپنے اشتہار مالکان اپنی دولت اور سٹے باز(بڑے پیمانے پر)اپنی دولت سمیٹنگے۔کرکٹ کے شیدائی خوش ہونگے درست کہ کھیلوں کو فروغ ملے گا، لڑکیوں کی بھی ٹیم بنے گی۔لیکن تعلیم اور تربیت کا کیا ہوگا کیا یہ ریاست مدینہ بن سکتی ہے۔عمران خان خواب سے نکل جائیں تو بہتر ہوگا۔معاشرے کو تباہ کرنے کے لئے تو صرف جیو، ہم اور اے آر وائی کے ڈرامے کافی ہیں۔ڈرامہ”پری زاد” کے علاوہ جو ہم بدترین اداکاری(پری زاد کی)اور ہدایت کاری اور بے سری کہانی کا حقدار ٹہرا سکتے ہیں اور پورا پاکستان وہ بھی جو چلنے پھرنے کے قابل نہیں سینما ہال کا رخ کرینگے۔آخری قسط دیکھنے کے لئے جو بھی اس میں شامل ہیں ان سے ایک سوال”پاکستان اور شریف عوام اور آنے والی جنریشن کے ساتھ کھلواڑ بند کب کیا جائیگا۔ان بے غیرتوں کی نظر میں پیسہ اور بیہودہ فیشن ہی ملک کی ترقی کا باعث ہے البتہ ملک کے بڑے بڑے شہروں میں بحریہ ٹائون کی طرز کے رہائشی کمپلیکس بن رہے ہیں۔زراعتی اور انڈسٹریل زمینوں پر حکومت کے کرتا دھرتا اور ملک کے محافظ ملک ریاض کی آڑ میں دولتوں کا انبار لگا رہے ہیں۔اپنے لئے الطاف بھائی جو کام چھوٹے پیمانے پر کرکے لندن جا بیٹھے ہیں۔ان سے زیادہ عسکری طبقہ مصروف عمل ہے۔”اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں اپنوں کو دے”کی مثال حقیقت کا رنگ لے چکی ہے۔اور عدلیہ سے اپنی مرضی کے فیصلے کرا رہی ہے۔اگر پولیس بھی ایسا کرتی ہے تو وہ سڑکوں پر مارے بھی جاتے ہیں لیکن ججوں میں سے ایک بھی نہیں مارا جاتا!!!۔
٭٭٭