بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر میں ہندو ذہنیت ، امتیازی سلوک سے تنگ آکر ایک آزاد ، خود مختار اور سب اقلیتوں کو مساوی حقوق دینے والی کرپشن سے پاک مملکت کی بنیاد رکھی جس کو پاکستان کا نام دیا گیا، بطور سربراہ مملکت قائد اعظم محمد علی جناح نے شفاف حکمرانی کی اعلیٰ مثال قائم کی اور اپنے عزیزو اقارب کو بھی حکومتی عہدوں اور اپنی ذات سے تعلقات کا فائدہ اُٹھانے کی اجازت نہیں دی لیکن ان کے بعد حکمرانوں نے اس شفافیت کو نظر انداز کیوں کردیا؟آج ملک کے سیاستدان اپنے بچوں ، فیملی کی جائیدادوں سے متعلق جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہیں جبکہ ملک کا سب سے معتبر ادارہ عدلیہ کے ججز حضرات بھی اس بات پر بُر ا منا جاتے ہیں کہ ان سے بچوں اور فیملی کی جائیدادوں کے متعلق سوالات نہیں کیے جا سکتے ہیں،کیونکہ وہ اپنی فیملی کی جائیدادوں سے متعلق جواب دہ اور ذمہ دار نہیں ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تو پھر حساب کتاب میں نہ آنے والی طویل جائیدادوں کے متعلق آخر کون جواب دہ ہے ، ایک طرف غریب طبقہ ہے کہ جو دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے اور دوسری طرف وہ اشرافیہ ہے جس کے پاس دولت کا حساب کتاب کرنے کیلئے وقت نہیں،معاشرے میں اتنی بڑی تفریق نہیں چل سکتی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ حکمران اپنا احتساب خود کرتے ہوئے قوانین مرتب کریں جس میں جائیدادوں ، دولت کی مکمل چھان ،بین اور حدبندی کو یقینی بنایا جائے، سیاستدانوں کے حکومت میں آتے وقت ان کی دولت ، جائیدادوں کا حساب کتاب مرتب کیا جائے اور پھر اقتدار ختم ہونے پر اس کی چھان بین کی جائے تاکہ دولت کو چند ہاتھوں میں سمٹنے سے روکا جا سکے۔اس حوالے سے جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے خلاف جائیداد کیس موضوع بحث بنا ہوا ہے جس میں ایف بی آر کی جانب سے جائیدادوں کے متعلق سرینا عیسیٰ سے پوچھ گچھ شروع کی گئی تو انھوں نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کر دی کہ مجھے نا حق تنگ کیا جار ہا ہے ،سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کا 45 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں عدالت نے جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے حق میں فیصلہ سنایا۔اس کیس کا تعلق جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے اثاثہ جات سے ہے تاہم عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی عیسیٰ اور اہلخانہ کا ٹیکس ریکارڈ حکام نے غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی نظرثانی درخواستیں اکثریت سے منظور کی جاتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر، جسٹس مظہر عالم، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین نے فیصلہ تحریر کیا۔وزیر قانون نے عدالتی فیصلے پر اعتراض اُٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا سرینا عیسیٰ نے یہ وضاحت دی کہ پیسے کہاں سے آئے؟ ان کا موقف تھا کہ صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ میرا تعلق امیرخاندان سے ہے، ایف بی آر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ سرینا عیسیٰ اپنے ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہیں۔وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کا جج اپنے اہل خانہ کے اثاثوں کا جواب دہ نہیں تو کیا یہ معیار دیگر سرکاری ملازمین کیلئے بھی ہوگا؟ ‘اگر جج جواب دہ نہیں تو مثلاً میں اور وزیراعظم اپنے خاندان کے اثاثوں سے متعلق کیوں جواب دہ ہوں؟
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ عدلیہ کا احتساب ضروری ہے لیکن قانون کے مطابق ہونا چاہئے، کھلی عدالت شیشے کے گھر جیسی ہے، ججز بڑوں بڑوں کیخلاف کھل کر فیصلے دیتے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سرینا عیسیٰ سے بیان میں معاملہ ایف بی آر بھیجنے کا نہیں پوچھا گیا تھا، سرینا عیسیٰ کو اہم ترین معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیاگیا، آئین کے تحت شفاف ٹرائل ہرخاص وعام کابنیادی حق ہے لہٰذا صرف جج کی اہلیہ ہونے پر سرینا عیسیٰ کو آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، قانون کے مطابق فیصلوں سے ہی عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑھے گا۔میرے خیال میں اب حکام کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے ، فیملیز سب کی عزیز ہوتی ہیں چاہے وہ کسی سیاستدان کی فیملی ہو یا جج کی ، اگر ہم عوامی عہدوں پر کام کرتے ہیں تو ہمارے سب معاملات عوام کے سامنے شفاف ہونے چاہئیںاور اگر ہم یہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ملک و قوم کی تقدیر ہی بدل جائے گی ، کیونکہ کرپشن وہ ناسور ہے جس نے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے ، سرکاری اور نجی ادارے اس کرپشن کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جس کو اب ہر صورت ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭