وقت کا کیا ہے، گزرتا ہے گزر جائے گا !!!

0
8

امریکی ریاست نیو جرسی میں آج رات کے دو بجے، اوقات ناپنے کے تمام پیمانوں پر وقت کو ایک گھنٹے پیچھے کر کے، دوبارہ ایک بجا دیا گیا۔ اس طرح بظاہر تو یہ رات ایک گھنٹہ طویل ہو گئی مگر نماز فجر کا وقت وہی پرانے وقت کے لحاظ سے، ایک گھنٹہ پہلے آگیا۔ ظاہر ہے، گھڑیوں کی سوئیاں تبدیل کرنے سے طلوعِ آفتاب کا وقت تو تبدیل نہیں ہو سکتا۔ ہر سال یہاں بہار کے موسم میں گھڑیوں کو ایک گھنٹہ فارورڈ کردیا جاتا ہے تاکہ دن کی روشنی کا مزید فائدہ اٹھایا جاسکے اور پھر خزاں میں، ایک گھنٹہ بیک کرکے، اسٹینڈرڈ (معیاری) ٹائم بحال کردیا جاتا ہے۔ امریکہ پہنچ کر، وقت کے ساتھ اس طرح کی حرکت ہوتے پہلی دفعہ دیکھی تو اقبال کا یہ شعر یاد آیا۔
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
علامہ اقبال نے تو ماضی کو، تصورات کی دنیا میں دیکھنا چاہا تھا لیکن یہاں تو ہر سال دو مرتبہ بس یہ ایک گھنٹہ آگے پیچھے کرنے کی مشق کی جاتی ہے جس کا آخری نتیجہ صفر ہی نکلتا ہے۔انسانی زندگی میں زمانے یا وقت کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ ایک ایسا قیمتی اثاثہ ہے کہ اگر ایک مرتبہ ہاتھ سے نکل جائے تو پھر کبھی واپس نہیں آسکتا۔ میر حسن نے اس حقیقت کو انتہائی خوبصورتی کچھ طرح سے بیان کیا ہے۔
سدا عیشِ دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
زمانے کے ان لمحات کی قسم تو خود باری تعالی نے سور العصر میں کھائی ہے۔زمانے کی قسم، انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔افسوس کہ انسان طرح طرح کی لغویات میں وقت جیسے قیمتی اثاثے کو کھو کر مسلسل اپنا نقصان کرتا رہتا ہے اور اسے اپنے اس خسارے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اسی طرح، افراط و تفریط کا شکار ہو کر، ہم یا تو ماضی کے واقعات پر اگر مگر کرتے رہتے ہیں یا مستقبل کے خیالی پلا پکانے پر بہت زیادہ وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ علامہ اقبال نے بڑی خوبصورت بات کی تھی کہ!
کسی نے دوش دیکھا ہے نہ فردا
فقط امروز ہے تیرا زمانہ
جاب ایٹ ہینڈ پر مکمل توجہ مرکوز کرکے اسے اچھی طرح انجام دے دیا جائے تو بیحد فائدہ حاصل ہوگا۔ امریکی لوگوں کے کام کرنے کے انداز پر ہمیشہ مجھے رشک آتا ہے۔ ہر فرد اپنے کام کو انتہائی توجہ سے کرتا ہے اور دوسروں کے کام میں خوامخواہ ٹانگ اڑا کر اپنا اور ان کا وقت ضائع نہیں کرتا۔ جاب کے دوران، ہر طرح کی لغویات سے بھی دور رہتے ہیں۔
امریکیوں کے اس طرزِ عمل کو دیکھ مجھے اس لئے بھی ان پہ رشک آتا ہے کہ وقت کی قدردان اور اس کی اہمیت سمجھانے والی سب سے عظیم ہستی حضور نبیِ آخرالزمان ۖ نے ارشاد فرمایا : اِغتنِم خمسا قبل خمس : شبابک قبل ہرمِک وصِحتک قبل سقمِک وغِناک قبل فقرِک وفراغک قبل شغلِک وحیاتک قبل موتِک ترجمہ : پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو : (1)اپنی جوانی کواپنے بڑھاپے سے پہلے(2)اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے (3)اپنی مالداری کو اپنی تنگدستی سے پہلے (4)اپنی فرصت کو اپنی مصروفیت سے پہلے اور (5)اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔
مستدرک ، 5 / 435 ، حدیث : 7916
ایسے لوگ، جن تک ہمارے نبی ۖ کے تعلیمات ابھی تک نہیں پہنچیں ہیں، وہ تو ان ۖ کے فرمان پر عمل کررہے ہیں لیکن ہم جو اپنے آپ کو ان ۖ کا پیروکار کہتے ہیں، وہ اس معاملے میں بہت کمزور واقع ہوئے ہیں۔وقت کی اہمیت سے تو کسی کو انکار نہیں البتہ یہ بھی طے ہے کہ یہ کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ زمانہ بڑی تیزی سے ایسے ایسے رنگ بدلتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ سکھی دکھی ہوجاتے ہیں، غریب امیر ہوجاتے ہیں اور طاقتور کمزور ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے تو علامہ اقبال نے یہ خوبصورت شعر کہا تھا کہ!
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اپنے اپنے وقت کے فرعون، ممیاں بن کر مقاماتِ عبرت کے مکین بن جاتے ہیں۔ انتہائی مالدار قارونوں کو کشکول اٹھائے بھی دیکھا ہے۔ آرام دہ محلوں میں رہنے والے، جیل کی کال کوٹھڑیوں میں سڑنے کیلئے پہنچا دئیے جاتے ہیں۔ بڑے مضبوط پہلوان، معذوری کی ناگفتہ بہ زندگی گزارتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ بڑے بڑے خوش خوراک، ایک دانہ بھر غذا بھی ہضم کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ خسارے میں گھرا ہوا انسان، یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اعمالِ صالح نہیں کرتا۔ شاید اسی لئے ہمیں سور العصر کو بار بار دہرانے کا حکم دیا گیاہے۔ہمارے زمانے کے مشہور شاعر، احمد فراز نے بھی اسی کثرت تذکیر کی ضرورت کے حوالے سے یہ شعر کہا ہے کہ
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے، گزرتا ہے گزر جائے گا
وقت کے گزرنے کے عمل کا رکنا بالکل محال ہے اور شاید اسی لئے ہم اکثر اپنے گزرے ہوئے وقت کو مختلف طریقوں یاد بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ یادیں بس یادیں ہی رہتی ہیں، وقت کو واپس کوئی نہیں لا سکتا۔ اقبال کے ان سادہ مگر خوبصورت اشعار پر آج کی بات ختم کرتے ہیں کہ
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا
وہ باغ کی بہاریں، وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا، اپنی خوشی سے جانا
لگتی ہے چوٹ دل پر، آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوں پر کلیوں کا مسکرانا
وہ پیاری پیاری صورت، وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا
آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here