مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
کیا آپ جانتی ہیں؟عائشہ رضی اللہ عنہا کی کوئی اولاد نہیں تھی، اس کے باوجود بھی کتب السن النبوی میں ایسا کوئی اثر نہیں ملتا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کبھی رسول اکرم ۖ سے یہ کہا ہو کہ
آپ میرے لئے اولاد کی دعا کریں!
کیا آپ جانتی ہیں؟
نبی کریم ۖ کی وفات کے وقت اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد 47 سال زندہ رہیں، رسول اکرمۖ آپ رضی اللہ عنہا سے بے انتہا، بے لوث محبت کرتے تھے اور آپ انتہائی غیرت والی تھیں، ان سب کے باوجود آپ رضی اللہ عنہا نے اپنی زندگی اسی رنج وغم میں یوں ہی نہیں گزاردی بلکہ خود کو علم وعبادت میں مشغول رکھا اور کبار صحابہ کرام کی معلمہ، مثقفہ اور مفتیہ بنی رہیں،زندگی کا انحصار صرف ان ہی چیزوں پر نہیں ہے:
نہ اولاد پر، نہ شادی پر، نہ گھر پر،نہ مال پراور نہ ہی ان چیزوں سے زندگی رُک سکتی ہے،نہ ہی سوکن کے آجانے سے،نہ ہی والدین کے گزر جانے سے،اور نہ ہی اولاد کے نہ ہونے سے زندگی رُک سکتی ہے۔اللہ جو کچھ واپس لیتا ہے. اسکے بدلے اس سے بہتر چیزوں سے نوازتا ہے(نعم البدل عطا کرتا ہے)اور یہ دنیا مکمل طور پر کسی کو بھی نہیں ملتی ہے بلکہ یہ تو ایک آزمائش گاہ ہے۔لہٰذا اپنے دلوں کو ایمان سے، اللہ کی رضا سے اور اسکے ساتھ حسنِ ظن سے معمور کریں، اور اپنے وقت کو طلبِ علم اور ان کاموں میں لگائیں جو آپکے لئے اور آپکے معاشرے کے لئے دنیوی اور آخروی اعتبار سے فائدہ مند ثابت ہوں،صبر کو اپنا توشہ اور قرآن کو اپنا ساتھی بنالیں۔فرمان باری تعالیٰ ہے “وما انزلنا علی القرآن لتشقی *”ہم نے قرآن کو آپکے لئے بطورِ تکلیف نہیں اتارا!کسی بھی انسان کے لئے قطعا یہ مناسب نہیں کہ وہ فارغ رہے، اس لئے کہ شیطان ایسے انسان پر برُے خیالات کے ذریعے مسلط ہوتا ہے جو فارغ ہو۔ پس اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود کو خیر کے کاموں میں مشغول رکھے تاکہ اس کا نفس اسے ضرر میں مبتلا نہ کرے۔آخری بات! میں نیک وصالح عورت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ نیک و عورتوں کی صحبت اور مجالس کو لازم پکڑے کیونکہ اس سے ایمان میں، علم میں اور بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔