چھٹی قسط
حضرت عائشہ کا سرکار کی بارگاہ میں بلاجھجھک مسائل کرید کرید کر پوچھنا اور مسائل کی تہہ تک پہنچ کر ہمیں باخبر کرنا بلاشبہ پوری ملت اسلامیہ پہ ایک احسان عظیم ہے۔ جوناقابل فراموش ہے ورنہ ہم بیشتر مسائل سے ناواقف اور سرکار کے ارشادات کے رموزو اسرار سے ناآشنارہ جاتے۔ حضرت عائشہ کے اندر خداوند قدوس نے اپنی عطائے خاص سے گوناگوں محیرالعقول ایسی صفات دویعت فرمائی تھیں کہ آپ ہر میدان میں یکتائے روزگار نظر آتی تھی یہ تو آپ نے سیدہ عائشہ کے علم وفن ملاحظہ فرمائے۔ آیئے کچھ اختصار کے ساتھ اُم المومنین کی شان سخاوت بھی دیکھیں۔ سیدہ عائشہ نے حضورۖ سے عرض کیا یارسول اللہ! بار بار دل میں یہ آرزو مچل رہی ہے کہ میں جنت میں بھی آپ کی رفاقت سے شرف یاب رہوں لہٰذا آپ اپنی زبان اقدس سے فرما دیں تاکہ مجھے اطمینان قلبی حاصل ہوجائے، سرکار نے فرمایا اگر تم اس بلند مرتبہ تک پہنچنا چاہتی ہو تو میری ان دو باتوں پر عمل کرتی رہنا۔ ایک یہ کہ کل کے لیے کھانا بچا کر نہ رکھنا اور دوسری بات یہ کہ اس کپڑے کو بے کار اور ناقابل استعمال نہ سمجھنا جو پیوند کے قابل ہو۔ تاریخ شاہد کہ حضرت عائشہ سرکار کے ارشادات مذکورہ پر تادم حیات کار بندر رہیں۔ چنانچہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ کو اس وقت ستر ہزار درہم راہ خدا میں صدفہ کرتے دیکھا جب کہ آپ کی مبارک قیمص میں جا بجا پیوند لگے ہوئے تھے۔ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے آپ کی خدمت میں ایک لاکھ درہم بھیجے تو آپ نے فوراً پوری رقم غرباء میں تقسیم فرما دی حتیٰ کہ افطار کے لیے بھی اس رقم سے کچھ بھی محفوظ نہیں رکھا حالانکہ اس دن آپ روزے سے تھیں۔ آپ کی کنیز نے عرض کیا اگر اس کثیر رقم سے ایک درہم بھی آپ روٹی کے لیے بچالی ہوتیں تو کیا ہی اچھا ہوا ہوتا۔ حضرت عائشہ نے بڑی سادگی سے جواب دیا کہ تم نے پہلے سے بتایا اور نہ مجھے یاد رہا۔ سیدہ عائشہ کا جذبہ سخاوت تو دیکھیے کہ ایک طرف افطار کے لیے گھر میں کھانے کا سامان موجود نہیں ہے اور دوسری طرف آپ کے پاس ایک لاکھ درہم جیسی کثیر رقم ہے مگر آپ نے اپنی ذات کے لیے ایک درہم بھی نہیں رکھا بلکہ پوری رقم راہ خدا میں تقسیم فرما کر اسلام کی تاریخ کے صفحات پر اپنی بے مثال سخاوت کا دائمی نقش چھوڑ دیا۔ حضرت عائشہ کے سینے میں ایک ایسا دل تھا جوکہ ہر دم خوف خدا سے لرزتا رہتا تھا۔ ہر چند کہ آپ سرور کائناتۖ کی محبوب ترین زوجہ تھیں اور انتہائی تقویٰ شعار اور زبدوورع کی شہسوار تھیں۔ یہی وہ وصف ہے جو خاصان خدا کے اندر بدرجہ اتم ضوفشاں رہتا ہے۔ چنانچہ آپ نے وصال کے وقت بطریق الحاح فرمایا۔ کاش خداوند قدوس نے مجھے درخت بنا دیا ہوتا اور میں کاٹ دی جاتی تاکہ مجھے کوئی یادہی نہیں کرتا۔ پھر کبھی فرماتیں کاش میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی۔ یہ آپ کی دنیا سے سخت ترین بے زاری اور تنفر کی بین دلیل ہے۔
٭٭٭٭٭