پہلے پہل کبھی کبھی دجال اور اس فتنوں کے بارے سنائی دیتا تھا اور اب کثرت کے ساتھ سنائی دے رہا ہے۔ مذہبی پہلو میں تو خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے اور دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر مولوی، ہر پیر، ہر لیڈر، ہر مفتی، ہر امام اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا چکا ہے۔ اس کے لئے ذہن پر زور دینے کی ضرورت نہیں ہے ،عوام الناس کی ٹوپی رنگ اور بناوٹ بتا دے گی کہ یہ کس کا مرید ہے۔ کس کو مانتا ہے، یہ میرا مضمون نہیں ہے ،میرا مدعا یہ ہے کہ مذہبی زندگی تو تلپٹ ہو ہی چکی ہے۔ معاشرتی زندگی بھی دائو پر لگی ہوئی ہے میرا ماننا یہ ہے کہ دجالی زندگی میں پہلا ہتھیار جو استعمال کیا گیا وہ کریڈٹ کارڈ تھا۔ پہلے لوگوں کو جیب کا اندازہ تھا۔ اسی حساب سے خرچ کرتے تھا نتیجہ یہ تھا کہ پہلے اکا دکا لوگ بنک کرپسی فائل کرتے تھے۔ چونکہ کارڈ کا اندازہ نہیں ہوتا۔ ہم اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اندھا دھند کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ اب ہر دوسرا تیسرا کریڈٹ کارڈ کے بے دریغ استعمال سے بنک کرپٹ ہوا پڑا ہے۔ اوپر سے بنک کرپسی کئی جائز ذرائع کو بھی کھا جاتی ہے اس کے نتیجے میں لوگ آمدنی کے لئے ناجائز ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ جس سے معاشرہ کو تباہ کرنے کا کام پوری شدومد کے ساتھ جاری وساری ہے ساری زندگی جان مار کر سہولتیں حاصل کرتے ہیں۔ پیسا اکٹھا کرتے ہیں پھر وہی پیسا بڑھاپے میں صحت کو بحال کرنے میں لگا دیتے ہیں حاصل کیا ہوا ، کچھ بھی نہیں، کھایا پیا برابر ہوگیا، نہ کسی نیک کام پر خرچ کیا نہ ہی راہ خدا میں دیا۔ خالی ہاتھ آئے تھے خالی چلے گئے سرکار دوعالم کے زمانے میں ایک شخص بہت غریب تھا۔ جو وقت ملتا مسجد میں گزار دیتا نہ جانے کیا خیال دل میں آیا۔ نماز کے بعد سرکار دو عالم سے ہاتھ ملایا اور عرض کی حضور دعا فرما دیجئے۔ کہ میں امیر کبیر دولت مند ہوجائوں آپ نے فرمایا کہ تجھے اچھا نہیں لگتا تو ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتا ہے۔ مسجد میں وقت گزارتا ہے میں اگر چاہوں تو یہ پہاڑ سونا بن کر میرے ساتھ چلے۔ مگر میں پسند نہیں کرتا کہ میں دولت کا بندہ بن جائوں تو بھی اسی زندگی پر گزارا کر اور میری زندگی کو دیکھا کر ثعلبہ نام تھا۔ سرکار کا ہاتھ پکڑ لیا، سرکار آپ دعا فرما ہی دیں کہ میں امیر کبیر ہوجائوں آپ نے دعا فرما دی۔ اے اللہ ثعلبہ کو مالدار کردے اور وہ مالدار ہوگیا جو چیز بھی خریدتا وہ مال کے اضافہ کا سبب بنتی۔ ڈھیر ساری بکریاں ہوگئی مجبوراً مدینہ طیبہ کے مضافات میں جانا پڑا، مصروف ہوگیا۔ مسجد نبویۖ کی نمازیں گئیں۔ جمعہ کے دن آتا ،آہستہ آہستہ جمعہ بھی چھوٹ گیا۔ سرکار دوعالم کو پتہ چلا ثعلبہ بہت امیر ہوگیا ہے آپ نے ایک شخص سال کے بعد زکواة کی وصولی کے لئے بھیجا۔ اس نے کہا زکواة تو ٹیکس لگتا ہے اب تم واپس جائو پھر دیکھوں گا۔ بلکہ میں خود لیکر آئوں گا۔ نہ آنا تھا نہ آیا حتیٰ کہ حکم ربی آگیا اب اگر یہ زکواة لیکر بھی آئے تو قبول نہ فرمانا یہ راندہ بارگاہ ہوگیا ہے۔ یہی دجال کا کام ہے یعنی بے راہ کرنا۔
٭٭٭