بارسوخ اور بااثر لوگ بھی قانون کے شکنجے میں! !!

0
113
پیر مکرم الحق

قانون کی پکڑ سب کی حوگی ورنہ قانون فقطہ کمزور کے خلاف طاقتور کا ہتھیار بن کے رہ جائیگا۔ ضروری ہے کہ اونٹ پہاڑ کے نیچے سے گزرے تاکہ اسے احساس ہو کہ اس سے طاقتور بھی کوئی ہے اور پچھلے دنوں جب ایک سابق جنرل اور ایک حاضر سروس سپریم کورٹ کے جج کے احتساب کی گونج سپریم کورٹ میں ہوئی تو کمزور وناتواں عوام میں ایک خوشی کی لہر دوڑی کہ قانون کسی کی باندی نہیں اور قانون کی حکمرانی پاکستان میں بھی ہوسکتی ہے۔ قانون کا دوہرا معیار نہیں ہوسکتا پچھلے 75سالہ دور میں ملک میں جنگل کا قانون چل رہا ہے۔ طاقتوروں اور دولتمندوں کا کچھ ایسا گٹھ جوڑ چلا ہے کہ وہ طبقات اپنے اثررسوخ سے مرضی کے جج لگوا کر اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے رہے ہیں۔ اور پھر وکیل کے ذریعے اپنے خریدے ہوئے جج کو پیغام بھیج دیتے ہیں کہ وہ کس قسم کا فیصلہ چاہتے ہیں اور بیچارے غریب لوگ اپنی شکایت کی عرضی لئے عدالتوں کے چکر لگاتے ہوئے اپنی جان کھو دیتے ہیں لیکن لیکن انصاف سے محروم رہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح طاقتوروں اداروں کے اعلیٰ عہدیدار قانون کے پرخچے اڑاتے ہوئے لوگوں کی جائیداد کو قبضہ کرنے سے باز نہیں آتے اور حد یہ ہے کہ وہ اس کام کے لئے اپنے ماتحتوں کو استعمال کرنے سے بھی باز نہیں آتے اس طرح وہ اہم ترین ادارے جن کا کام ملک کا مضبوط دفاع کرنا ہے وہ ذاتی دولت جمع کرنے کے کام میں ملوث ہو جاتے ہیں جب اعلیٰ ترین عہدیدار لوٹ مار اور ناجائز قبضہ کے غیر قانونی کام میں پڑجائیگا تو پھر اسکے ماتحت ملازمین بھی اپنے باس کے نقش قدم پر چلیں گے اور پھر نتیجا یہی نکلے گا کہ اہم ترین حساس اداروں کی کارکردگی متاثرہوگی۔ اگر ملک کے اہم ترین راز دوسرے ممالک کو دیناغداری سے جسکی سزا موت ہے تو پھر اپنے عہدوں کے اختیارات ذاتی منافع کے لئے استعمال کرکے ملکی جڑیں کمزور کرنا بھی تو غداری ہی ہے۔ اور اسے جرم کی سزا بھی سخت ترین ہونی چاہئے اس طرح سپریم کورٹ کے مذکورہ جج کے خلاف کھلم کھلا وکلاء تنظیموں کی اکثریت نے بدعنوانی اور ناجائز ملکیت پر ریفرنس جمع کئے ہیں۔ اس کام میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وکلاء حضرات نے بھی بیچ والے(Midde Man) کا کردار ادا کیا ہے انکے بھی وکالت کے لائسنس معطل اور اگر انکا ملوث ہونا ثابت ہو جائے تو ہمیشہ کے لئے وکالت کا اجازت نامہ ختم ہوجانا چاہئے اگر کوئی بھی جج بدعنوانی میں ملوث ہوتا ہے تو اس جرم میں درمیانی کردار وکالت کے معزز پیشہ سے مسلک لوگوں کا ہی ہوتا ہے۔ وکیلوں کو بھی اپنی کالی بھیڑوں کو اپنے درمیان سے نکال کر اپنے پیشہ کی حرمت کی حفاظت کرنا لازم ہے۔ ورنہ عوام میں جو رہی سہی عزت ہے وہ بھی جاتی رہگی۔ اسی طرح جج صاحبان اور جرنیلوں کو بھی اپنی کالی بھیڑوں کو احساب کے لئے پیش کرنا چاہئے تاکہ ملکی دفاع میں ایسی دھمکی کا خاتمہ کرکے ملکی دفاع کو مضبوط ترین کیا جاسکے۔ بدعنوانی کا قلعہ قمع اعلیٰ ترین سطح سے ختم کرنی ضروری ہے اگر آپ چھوٹے چھوٹے سرکار کی اہلکاروں کو پکڑتے رہینگے اوپر والے افسران کو کھلی چھٹی ملتی رہگی بدعنوانی کی عفریت ملکی جڑوں کو کمزور کرتی چلی جائیگی۔ سپریم کورٹ میں ایک تبدیلی نے ثابت کیا ہے کہ جس معاشرے میں قانون کی ہمدداری ہوگی وہی معاشرہ مضبوط ہوگا اور ترقی کر پائیگا۔ باقی چھوٹے چھوٹے چوہے مار کر آپ کسی معاشرے کو پاک نہیں کرسکتے۔ اگر اعلیٰ ترین عدالتوں کے منصفین پر جب انگلیاں نہ اٹھیں تو سمجھ لیں کہ اب قانون کی بالادستی ہوگی اور غریب کو انصاف مل پائیگا۔ ایک اور پہلو بھی اہم ہے عدالتی نظام کو اصلاح کے لئے کے چند طاقتور وکلا نے بھی نظام انصاف پر اثر انداز ہوتے ہیں پہلے بار کاونسلوں میں انتخابات جیتے ہیں پھر ججوں کے ساتھ تعلقات بناتے ہیں پھر اپنی منشاء کے فیصلے کراتے ہیں پھر اپنی فیس بڑھاتے ہیں اور موکلوں کو یہ تک کہنے سے باز نہیں آتے کہ بھئی جج صاحب کو بھی تو ”دیکھنا” ہے یہ جو ”دیکھنا” اس کی کئی معنیٰ نکالی جاسکتیں ہیں تو ایسے طاقتور لیکن لالچی وکلا کا احتساب بھی نہایت ضروری ہے کیونکہ اسے وکلا نے بھی عدالتی نظام کو یرغمال بنایا ہوا ہے وکلا برداری میں صاف ستھرے اور قابل وکلا بھی بہت ہیں لیکن وہ کیونکہ اس مافیا کا حصہ نہیں بنتے اس لئے وہ بیچارے باوجود اپنی ذہانت اور قابلیت کہ انہیں نظر انداز کرکے پیچھے رکھا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے اصولوں پر سودے بازی نہیں کرتے۔ اسلئے ضروری ہے کہ عدالتی نظام کی صفائی بہت ضروری ہے جس کے لئے تین فریقوں نے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ جج صاحبان وکلاء اور وکلا تنظیمیں جب تک یہ سہ فریقی دھڑے اپنی صفوں میں ”بھل صفائی” نہیں کرینگے ،انصاف زخمی ہوتا رہے گا اور معاشرہ بہتری کے عمل سے محروم رہے گا،ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here