پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے پہلے سے خبردار کر دیا ہے کہ مستقبل میں ہونے والے انتخابات میں کسی قسم کی دھاندلی کرنے کی کوشش نہ کی جائے اور اگر نتائج پہلے سے طے شدہ ہیں تو پھر انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں،ایسے بیانات ویسے پاکستان کے نظام میں اب کوئی اہمیت رکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی سننا پسند کرتا ہے مگر میرے لیے یہ بیان اس لیے باعث تشویش ہے کہ ایک سیاسی خاندان کی تیسری نسل کو بھی نظام سے یہی خطرہ ہے۔پاکستان میں انتخابات ہمیشہ سے آزادانہ طور پر نہیں بلکہ غلامانہ طور پر ہی ہوئے ہیں، اپنی پسند کے نتائج حاصل کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی حربہ ضرور استعمال کیا گیا، اسٹیبلشمنٹ اور فیورٹ سیاسی جماعت میں مل کر انتخابات کے نام پر وہ ڈاکہ ڈالا کہ جس کا کبھی کوئی ثبوت نہیں مل پایا، میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہمیں انتخابات کی ضرورت بھی کیا ہے، انتخابات تو ان ممالک میں ہوتے ہیں جہاں عوام کے حق رائے دہی کی عزت ہو،جہاں عوام کے ووٹ سے ہی حکومت منتخب ہوتی ہوں، پاکستان میں یہ دونوں چیزیں اب خواب و خیال میں بھی نہیں آتی۔
ہمارا المیہ یہی ہے کہ پاکستان چند ایسے ہاتھوں میں چلا گیا جنہوں نے اپنی مرضی سے اس ملک کے آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائیں، اپنی مرضی کے حکومتیں بنوائیں اور اپنی مرضی سے حکومتیں گرائیں، کسی کو چور بنایا کسی کو ایماندار کہلوایا، کسی کے اکائونٹ سے اربوں روپے نکلوائے اور کسی کے کارخانوں سے انڈین ایجنٹ نکالے گئے۔ یہ ڈرامے ہر بار اس فخریہ انداز میں پیش کیے جاتے رہے جیسے ان سے بڑا ڈرامے باز کوئی نہیں اور انہی ڈرامے بازیوں کے سبب آج پاکستان کا حال دیکھ لیں۔ پاکستان کے ہمسایہ ممالک کی حالت دیکھ کر پاکستان کی حالت پر ترس لگتا ہے۔افسوس کی بات ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بے نظیر بھٹو تک اور اپ بلاول بھٹو زرداری تک تیسری نسل کو نظام سے وہی خطرہ اور شکایت ہے جو پاکستان میں 1973 کا جمہوری آئین لاگو ہونے کے بعد سے چلی آ رہی ہے۔انتخابات کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے ہی پاکستان کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے، جب پاکستان کے مسند اقتدار سنبھالنے والوں کو یہ یقین ہو جائے کہ عوام کے ووٹ کی اہمیت رتی برابر نہیں تو وہ پھر عوامی اور ملکی مسائل کو حل کرنے کے بجائے مالکان کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔خدا کرے کہ اب چوتھی نسل کے آنے سے پہلے پاکستان میں انتخابات کا وقار بحال ہو تاکہ اس نسل کو بھی یہ خطرہ محسوس نہ ہو کہ اگر انتخابات کہ نتائج پہلے سے طے ہیں تو پھر انتخابات کا کیا فائدہ ؟ کب تک ہم دھاندلی کے دھندلے خواب دیکھتے رہیں گے۔
٭٭٭