شرک کیا ہے؟

0
141
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے مجھے کچھ قارئین کے اعتراضات سننے کو ملے کیونکہ اکثر روحانیات اور فلکیات پر لکھتا ہوں تو سوچا کیوں نہ قارئین سے شرک کے موضوع پر ہی تبادلہ خیال ہوجائے اور ان کے دماغوں میں بیٹھی گرد چھٹے شرک ایک ایسا گناہ ہے جس کی کوئی بخشش نہیں ہے یہی وجہ ہے موضوع انتہاء حساس نوعیت کا ہے ۔زرا قرآن مجید کو سنتے ہیں کہ وہ شرک کے بارے میں کیا فرما رہا ہے۔۔۔ابھی ہم نے سورہ مبارکہ النسا کی ایک سو سولہویں آیت دیکھی جس میں ہمیں آگاہ کیا گیا کہ اللہ ہمارے تمام گناہ معاف کرسکتا ہے، سوائے شرک کے۔۔۔اب ذرا دیکھتے ہیں کہ اللہ نے اپنے برگزیدہ پیغمبروں سے شرک کے حوالے سے کیا فرمایا۔۔۔سورہ مبارکہ الانعام کی مسلسل پانچ آیات میں اپنے پیغمبروں کا ذکر کیا۔۔۔ آیت نمبر تراسی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر سے ابتدا کی اگلی آیت میں اسحاق علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام، نوح علیہ السلام، داد علیہ السلام، سلیمان علیہ السلام، ایوب علیہ السلام، یوسف علیہ السلام، موسی علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کا تذکرہ کیا۔ پچاسیویں آیت میں ذکریا علیہ السلام، یحیی علیہ السلام، عیسی علیہ السلام اور الیاس علیہ السلام کا ذکر بیان فرمایا۔۔۔۔ اس کے بعد چھیاسیویں آیت میں اسمعیل علیہ السلام، یسع علیہ السلام، یونس علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کا تعارف کرایا۔۔۔ ان تمام برگزیدہ پیغمبروں میں جن میں اولوالعزم پیغمبر بھی شامل ہیں، ذکر کرنے کے بعد اٹھاسیویں آیت میں فرمایا!
ذلِک ہدی اللہِ یہدِی بِہ من یشآ مِن عِبادِہ و لو اشرکوا لحبِط عنہم ما کانوا یعملون
جس کا ترجمہ ہے!
اللہ کی ہدایت ہی ہے جس کے ذریعہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اس کی ہدایت کرتا ہے اور اگر فرضا یہ حضرات بھی شرک کرتے تو جو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وہ سب اکارت ہوجاتے، یعنی شرک وہ گناہ عظیم ہے کہ اگر اللہ کے نبی سے سرزد ہوجائے تو ان کے اعمال اکارت کردینے کیلئے کافی ہے۔۔۔ پھر ہماری اوقات کیا ہے۔۔۔ احقر تو اس مکتبہ سے تعلق رکھتا ہے جہاں توحید کا مقام ایمان میں نبوت و امامت سے بہت پہلے آتا ہے!
شرک کی تین اقسام ہیں۔ شرک فی العبادہ، شرک فی الذات
شرک فی الصفات، شرک فی العبادہ کا مطلب ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو بھی عبادت کے لائق سمجھا جائے۔۔۔ شرک فی الذات سے مراد کسی ذات کو اللہ جیسا مان لینا۔۔۔ جیسے مجوسیوں کے یہاں ہوتا ہے شرک فی الصفات کا مطلب یہ ہے کہ جو صفات خالصتا” اللہ رب العزت کی ہیں، ان صفات کا مظہر کسی اور ذات کو بھی مانا جائے۔۔۔ اور وہ صفات کسی پیغمبر، کسی ولی، کسی قطب سے بھی منسوب کردی جائیں
اگر ہم ان تینوں میں سے کسی بھی ایک میں مبتلا ہیں تو ہم شرک کا ارتکاب کر رہے ہیں۔۔۔اور اس عمل کی معافی نہیں ہے جیسا کہ سورہ مبارکہ النسا کی ایک سو سولہویں آیت میں ارشاد ہوا۔
اِن اللہ لا یغفِر ان یشرک بِہ و یغفِر ما دون ذلِک لِمن یشآ و من یشرِک بِاللہِ فقد ضل ضللا بعِیدا
شرک وہ عظیم گناہ کبیرہ ہے کہ جس کا ارتکاب بالفرض اللہ کے اولوالعزم پیغمبر سے بھی ہوجائے تو اس کے تمام اعمال اکارت ہوجائیں ۔۔ سورہ مبارکہ الانعام آیت 83-88
تاہم سوائے چند مخصوص سوچ رکھنے والے نصیریوں کو چھوڑ کے، شرک فی العبادہ اور شرک فی الذات کا مرتکب کوئی بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔ ہم سبھی اللہ رب العزت کو ہی لائق عبادت اور وحدہ لاشریک مانتے ہیں۔۔۔ الحمد للہ
شیطان شرک فی الصفات کی حقیقت کو سمجھنے سے روکتاہے اور امت میں وسوسے پیدا کرتاہے لہذا قرآن مجید کی آیات سے اس کو سمجھتے ہیں۔
1)۔۔۔اللہ تعالی رف اور رحیم ہے، سورہ مبارکہ البقرہ کی آیت 143 میں ارشاد ہوا
القرآن: اِن اللہ بِالناسِ لر وف رحِیم۔
ترجمہ: بیشک اللہ تعالی لوگوں پر رف اور رحیم ہے
سرکار صلی اللہ علیہ وسلم بھی رف اور رحیم ہیں جیساکہ قرآن کریم کی سورہ مبارکہ التوبہ کی 128 ویں آیت میں میں ذکرہے۔
لقد جآ کم رسول مِن انفسِکم عزِیز علیہِ ماعنِتم حرِیص علیکم م بِالم مِنِین ر وف ر حِیم o
ترجمہ: بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں (بھاری) ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ، مومنوں پر رف اور رحیم ہیں۔
پہلی آیت پر غور کریں تو سوال پیدا ہوتاہے کہ رف اور رحیم اللہ تعالی کی صفات ہیں پھر دوسری آیت میں سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو رئوف اوررحیم فرمایا گیا، تو کیا یہ شرک ہوگیا؟…..
اس کی تشریح و تفسیر یوں کی جائے گی کہ اللہ تعالی ذاتی طور پر رف اوررحیم ہے جب کہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ تعالی کی عطا سے رف اوررحیم ہیں لہذا جہاں ذاتی اورعطائی کا فرق واضح ہوجائے وہاں شرک کا حکم نہیں لگتا
2)۔۔۔ علمِ غیب اللہ تعالی کے سوا کسی کے پاس نہیں : سورہ مبارکہ النمل کی پینسٹھویں آیت میں ارشاد الہی ہے
قل لا یعلم من فِی السموتِ والارضِ الغیب اِلا اللہ ۔
ترجمہ: تم فرما اللہ کے سوا غیب نہیں جانتے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں۔
جبکہ قرآن کریم ہی کی سورہ مبارکہ الجن کی چھبیسویں اور ستائیسویں آیات میں ذکر ہے

علِم الغیبِ فلا یظھِر علی غیبِہ احدا اِلا منِ ارتضی مِن رسول
ترجمہ: غیب کاجاننے والا اپنے غیب پر صرف اپنے پسندیدہ رسولوں ہی کو آگاہ فرماتاہے ہر کسی کو (یہ علم) نہیں دیتا
علمِ غیب اللہ تعالی کی صفت ہے پہلی آیت سے یہ ثابت ہوا مگر دوسری آیت سے معلوم ہوا کہ علمِ غیب اللہ تعالی نے اپنے پسندیدہ رسولوں کو بھی عطا کیا ہے تو کیا یہ شرک ہوگیا ؟… بالکل نہیں کیونکہ اللہ کا عالم الغیب ہونا صفت ذاتی ہے جبکہ رسول کا عالم الغیب ہونا صفت عطاء ہے۔۔۔ اور رسول صرف اتنا ہی علم غیب جانتے ہیں جتنا انہیں عطا کیا گیا۔۔۔علم غیب موسی علیہ السلام کو عطا نہیں ہوا جبکہ خضر علیہ السلام اتنا علم ضرور رکھتے تھے جو اللہ نے انہیں عطا کیا۔۔
3)۔۔۔ مدد گار صرف اللہ تعالی ہے : جیساکہ اللہ تعالی قرآن عظیم کی سورہ مبارکہ محمد کی گیارہویں آیت میں فرما رہا ہے

ذلِک بِان اللہ مولی الذِین امنوا ۔:
ترجمہ: یہ اس لئے کہ مسلمانوں کا مددگار اللہ ہے
لیکن سورہ مبارکہ التحریم کی چوتھی آیت میں یہ ارشاد بھی ہے۔۔۔

فاِن اللہ ھو مولہ وجِبرِیل وصالِح الم مِنِین :
ترجمہ: بے شک اللہ ان کا مددگار ہے اورجبریل اورنیک مومنین مددگار ہیں۔
پہلی آیت پر غور کریں تو معلوم ہوا کہ مدد کرنا اللہ تعالی کی صفت ہے لیکن دوسری آیت میں جبریل اور اولیا اللہ کو مددگار فرمایا گیا، تو کیا یہ شرک ہوگیا؟… قطعا” نہیں۔۔۔۔ یہاں تو مجھے یاعلی مدد کہنے کا جواز عطا ہو رہا ہے
اس میں بھی تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالی ذاتی طو ر پر مددگار ہے اورحضرت جبریل علیہ السلام اوراولیا کرام ، اللہ تعالی کی عطا سے مددگار ہیں۔
جو ذات باری تعالی عطا فرمارہی ہے اس میں اور جس کو عطا کیا جارہاہے ان حضراتِ قدسیہ میں برابری کا تصور محال ہے اورجب برابری ہی نہیں تو شرک کہاں رہا ؟…..
اہم بات یہ ہے کہ جہاں باذنِ اللہ کا تصور آجائے وہاں شرک کا تصور محال اور ناممکن ہوجاتا ہے ۔
قرآن مجید کی آیات کو سیاق و سباق سے ہٹ کے سطحی طور پہ ان کا مطلب نکالنا بالکل غلط ہے
قرآن مجید سرچشمہ ہدایت ہے، مینارہ نور ہے، شفا ہے، قرآن پچھلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، قرآن پاک نے ہمیشہ غور و فکر کرنے کی دعوت دی اور اسے ہمیشہ اللہ کی طرف رجوع لانے کی ترغیب دلائی لیکن ہر پڑھنے والا اور قرآن پاک میں سطحی نظر کرنے والا یہ نہ سمجھے کے قرآن پاک کی تلاوت کرنے والے تمام ہی افراد مقصد کو پالیں گے۔نہیں ہر گز نہیں بلکل قرآن پاک نے خود اس کی تردید کی۔
سورہ مبارکہ البقرہ کی چھبیسویں آیت میں ارشاد الٰہی ہے

اِن اللہ لا یستحی ان یضرِب مثلا ما بعوض فما فوقہا فاما الذِین امنوا فیعلمون انہ الحق مِن ربِہِم و اما الذِین کفروا فیقولون ما ذا اراد اللہ بِہذا مثلا یضِل بِہ کثِیرا و یہدِی بِہ کثِیرا و ما یضِل بِہ اِلا الفسِقِین
یعنی قرآن راہ ہدایت ہے، راہ راست پہ لاتا ہے لیکن فاسق اسی سے گمراہ بھی ہوتے ہیں۔۔۔
اس کی ایک بہترین مثال خوارج ہیں۔۔۔ ان کی قرات لاجواب اور مسحور کردینے والی تھی۔۔۔ لیکن مولائے کائنات نے فرمایا کہ ان کے لحن پہ نہ جانا، قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اتر سکا ہے۔۔ گویا ان کے قلوب قرآن کی ہدایت سے کلی طور پہ محروم ہیں
عبدالرحمن بن جوزی البغدادی نے 800 سال پہلے اپنی کتاب تلبیس ابلیس میں بھی ان خارجیوں کے بارے میں تفصیلا لکھا ہے ۔خارجی وہ لوگ تھے جو کلمہ بھی پڑھتے تھے،قرآن کی بھی تلاوت کرتے تھے،عبادت بھی کرتے تھے بلکہ اس قدر شدت کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے تھے کہ عبداللہ بن عباس نے فرمایا ! میں نے ان سے بڑ ھ کر عبادت میں کوشش کرنے والی کوئی قوم نہیں دیکھی،سجدوں کی کثرت کی وجہ سے ان کی پیشانی پر زخم پڑ گئے تھے
لیکن قرآن مجید فرقان حمید غلط سمجھنے کی وجہ سے یہ ایسے گمراہ ہوئے کہ انھوں نے حضرت علی علیہ السلام پر شرک کا الزام لگا دیا اور وہ کہنے لگے کہ مولائے کائنات جناب امیر علیہ السلام اسلام سے خارج ہیں( نعوذباللہ من ذالک)۔۔۔
گفتگو کو سمیٹتے ہوئے، خلاصہ یہ ہے کہ،
1۔ اللہ کے علاوہ کوء بھی عبادت کے لائق نہیں
2۔ اللہ وحدہ لاشریک ہے، اس جیسا کوء دوسرا نہیں
3۔ اگر اللہ کی صفات کی مظہر کوء ذات ہمیں نظر آتی ہے تو وہ اس کی وہ صفات عطائے ربی ہیں۔۔۔ اس کی ذاتی نہیں ہیں۔۔۔ جیسا کہ مٹی کا پتلا بنا کے اس میں روح پھونکنا اللہ کا اختیار ہے لیکن اللہ نے اذن دیا تو عیسی علیہ السلام نے بھی پرندہ بنا کے اڑا دیا۔۔۔۔
اللہ رب العزت ہمیں خوارج کے “ہیضہشرک” سے محفوظ رکھے۔۔۔اور نصیریوں کے عقیدہ شرک سے بھی دوررکھے
اللہ رب العزت ہمیں شرک سے محفوظ رکھے۔۔۔ آمین
ضرورت محسوس ہوء تو شرک کے موضوع پر مذید تفصیلا لکھونگا اس کے ساتھ ہی اجازت دیں ملتے ہیں اگلے ہفتے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here